تیرہ نومبر 2015ء کے پیرس کے حملوں نے پورے یورپ کو ہیجان میں مبتلا کردیا ہے اور مورد الزام مسلمانوں کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ یہ کوئی نہیں سمجھ رہا کہ یہ خود مغرب کی پیداوار ہے اور اس کا ہدف امریکہ کے دشمن ممالک اور مسلمان ہیں۔ دولت اسلامیہ فی العراق و شام (جو اب اسلامی ریاست کہلاتی ہے) نامی تنظیم نے کچھ مہینوں پہلے جنم لیا الرفع کے علاوہ اس نے 20عراقی شہروں پر قبضہ کرلیا، جس میں سب سے اہم شہر حلب تھا، جہاں سے انہیں ساڑھے تین ارب ڈالر کا اسلحہ مل گیا جن میں اپاچی ہیلی کاپٹر بھی تھے۔ اگر آپ دیکھیں تو مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور امریکہ کے مخالف یا دشمن زخم خوردہ ہو چکے ہیں۔
روس کا جہاز گر گیا، فرانس امریکہ سے الگ ہونا چاہتا ہے اس لئے سزا کے مرحلے سے گزرا، اُس کے عوام پر جو قیامت ٹوٹی اس جیسی سینکڑوں قیامتیں پاکستان پر ٹوٹ چکی ہیں۔ حزب اللہ کے علاقے میں بھی بم دھماکہ ہوا۔جوبائیڈن منصوبے کے تحت عراق کے تین حصے، شام کے پانچ، لبنان کے تین، نیا ملک کردستان اور عظیم تر بلوچستان منصوبوں کے علاوہ مصر، عرب ریاستوں کی تقسیم شامل ہے۔ 2 مارچ 2015ء کو میں نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ داعش حزب اللہ کے خلاف بنائی گئی ہےجو درست ثابت ہوا کہ اب داعش حزب اللہ پر حملہ آور ہے۔
اس کالم میں اس تنظیم کےقیام کے مقاصد اور اس کے بنانے میں مغربی ہاتھ کےبارے میں قارئین کی خدمت میں کئی حوالے دینا چاہتا ہوں۔ امریکہ کو ایک دشمن کی ضرورت ہے تاکہ اس کا وجود برقرار رہے اور اُس کے عوام اُس کےعزائم میں آنکھیں بند کرکے ساتھ دیں۔ جب القاعدہ کمزور ہوگئی تو اُس کو ایسے لوگوں کی تنظیم بنانا تھی جو یورپ و امریکہ کے مظالم سے تنگ آئے ہوں اور اُن کے پاس کام کرنے کو کچھ نہ ہو۔ یہ بات داعش کے ایک بہکے بھٹکے ہوئے لڑکے نے اپنے والدین کو ایک خط کے ذریعے بتائی کہ وہ کھاتے تھے اور پیتے تھے، اُن کے پاس کچھ کام کرنے کو نہ تھا، اب وہ کام کررہے ہیں۔ دُنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ ہر وہ کام کررہے ہیں جو اسلام کے خلاف ہے اور امریکہ اور مغرب کے مفاد میں ہے، مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور امریکہ دشمن طاقتوں کو بھی سزا دینا ہے۔ تحقیق شدہ بات یہ ہے کہ امریکہ داعش کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی نئی سرحد بندی کرنا چاہتا ہے۔ حزب اللہ کو کمزور اور عظیم تر اسرائیل بنانا چاہتا ہےاور آگے چل کر روس میں عدم استحکام پیدا کرنا، شام کے ٹکڑے کرنا جہاں روس کا اڈہ ہے۔ اِسکے علاوہ سارے مسلمان ممالک خصوصاً افغانستان، ایران، پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ اِسکے ساتھ ساتھ وہ چین، روس اور سینٹرل ایشیا کے ممالک ہیں جو داعش کی زد میں آئیں گے۔داعش کو ہر ریاست میں رضا کار مل جائیں گے جو وہاں کے حکمرانوں کے مظالم اور طرزِحکمرانی کی وجہ سے ان حکومتوں کے خلاف ہیں۔
یہ بات کہ داعش امریکہ کا مہلک ترین ہتھیار ہے، اس کو ہم اس طرح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ برطانیہ کی لیبر پارٹی کے لیڈر جیریمی کوربین پیرس خودکش حملوں کے فوری بعد کہتے ہیں کہ داعش مغرب کی پیداوار ہے۔ واشنگٹن بلاگر نے 24 مئی 2015ء کو امریکہ کی خفیہ دستاویز کے مطابق ایک امریکی جنرل اور امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکہ کے قریب ترین اتحادی داعش کی مدد کررہے ہیں اور امریکہ کا اصل میڈیا داعش کو نمایاں کرتا ہے۔Planet Investigation نے لکھا ہے داعش امریکہ کا مکمل اثاثہ ہے تاکہ اسرائیل محفوظ ہو۔ ایک ادارہ مڈل ایسٹ مانیٹر MEM نے ڈیوڈ ہرسٹ کا مضمون 20 اگست 2014ء کو شائع کیا تھا کہ داعش کی عفریت مغربی پیداوار ہے۔ پھر جون 2015ء کو دی گارجین نے لکھا کہ کس طرح بلی تھیلے سے باہر آئی اور کس طرح امریکہ نے داعش کو عراق اور شام میں ابھرنے میں مدد کی۔ 17 مئی 2015ء کو اردن کے اخبار Jordian Times نے لکھا اگرچہ مغرب اس بات سے بظاہر منکر ہے کہ داعش اس نے بنائی مگر سوال یہ ہے کہ اُس کو اسلحہ اور فنڈنگ کون کر رہا ہے۔
اب 16 نومبر 2015ء کو اوباما نے کہا ہے کہ اس کی فنڈنگ 20 ممالک کر رہے ہیں۔ 19 اگست 2014ء کو معروف امریکی منحرف اور سائبر ماہر اسٹوڈن نے امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کی دستاویز نکالی کہ داعش کو امریکہ اور اسرائیل نے جنم دیا ہے۔ اس پر سی آئی اے کے ڈائریکٹر کا یہ رد عمل آیا کہ اس شخص نے امریکہ کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے۔ ترکی کے وزیراعظم احمد دائود اگلو نے کہا کہ مغرب نے داعش کو پیدا کیا۔ 2012ء میں ایک ادارے انٹیلی جنس ایجنسی نے لکھا مغرب بطور سہولت کار داعش کو پروان چڑھائے گا اور کالم نگار اری مراد نے 13 اکتوبر 2014ء کو لکھا کہ داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی یہودی اور اسرائیلی ہے۔
اسکے علاوہ برطانیہ کے سابق نائب چیف آف دی اسٹاف جاناتھن شا نے بتایا کہ داعش امریکی پیداوار ہے اسی طرح نوم جومسکی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ یہی نہیں دُنیا کے بہت سے اداروں، رسالوں، اخبارات نے اس کی تصدیق کی ہے۔ اگر خود امریکہ کی دستاویز جو De-classified کردی گئی ہیں وہ کہتی ہیں کہ داعش کو امریکہ کے ایک قریب ترین اتحادی نے جنم دیا تو پھر یہ قریب ترین کون ہے، یہ برطانیہ ہے یا کوئی اور؟ فرانس یہ سوال امریکہ سے ضرور کرے۔ یہ بھی سوال کرے کہ اُن پر ہی حملہ کیوں ہورہا ہے اسلئے کہ امریکہ فرانس سے ناراض ہے۔
حال ہی میں روس کا جہاز گر گیا، حزب اللہ کے علاقے میں بم کا دھماکہ ہوا اور پھر پیرس میں یہ حادثہ ہوا۔ پیرس اور یورپ مسلسل حالت جنگ میں رہنے سے تھک گئے تھے اور وہ جان گئے تھے کہ وہ خوامخواہ امریکہ کے اتحادی بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا مقصد مسلسل جنگ اور جنگ ہے۔ مسلسل خونریزی اور خونریزی ہے، وہ انسانیت کے خلاف مسلسل سرگرم عمل ہے۔ یہ بات Pantagon Doctrine 2015 میں دیکھی جا سکتی ہے چنانچہ ان یورپیوں کو سبق دینے کیلئے پیرس کا خودکش حملہ ہوا۔ مگر کوئی امریکہ سے سوال نہیں کرتا یورپ وہی کرتا ہے جو امریکہ اور اس کا میڈیا اُس کو پڑھاتا ہے۔ وہ جانتے ہوئے بھی امریکہ کے مقاصد کیلئے چل پڑتے ہیں۔ نہیں سوچتے کون اُن کو اس ابتلاء میں ڈال رہا ہے۔
دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان فرانس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس لئے وہ اس کے دکھ کو جانتا ہے کیونکہ وہ ایسے سینکڑوں دکھوں سے گزر کر آیا ہے۔ دُنیا میں سب سے زیادہ دہشتگردی پاکستان کے خلاف کرائی گئی ہے۔ سب سے زیادہ پاکستان کے شہری اور فوجی شہید ہوئے ہیں۔ ہم فرانس کا ساتھ دینے کو دستیاب ہیں، ہم دہشتگردی کو ختم کرنے میں اُن کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں، اگرچہ ہم فرانس کے تعصب اور وعدہ خلافیوں کے بھی مارے ہوئے ہیں۔ فرانس کے معاملے میں کئی معاملات اسکے خلاف جا رہے ہیں اُس کا الجزائر میں کردار، دوسرا اس کا کارٹون کے معاملے میں کردار، تیسرا اُس کے ملک میں رہائش پذیر گمشدہ نسلیں۔ 2006ء میں فرانس کے ایک دانشور اولیور رائے جو اسلام کے بارے میں ماہر جانا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ آج کا مسلم نوجوان جو مغرب میں پلا پڑھا اور آج وہ مغرب کے ساتھ نبرد آزما ہے۔ اس مسلم ماہر فرانسیسی کو یہ بھی معلوم کرنا چاہئے تھا کہ ان نسلوں کو کوئی اپنے مفاد میں استعمال بھی کرر ہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ‘جنگ’