مصر میں صدر مرسی کے خلاف عوامی دباؤ آیا،بہتیری کوششوں کے باوجود کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا،فوج نے آکراخوانی حکومت ہٹاکر زمامِ اقتدار پر قبضہ کرلیا،جنرل سیسی جوکہ اَب صدرِ جمہوریہ ہیں،کے خلاف عالمی اقتصادی پابندیاں لگ گئیں،ملک میں خانہ جنگی کی سی صورت حال نے جنم لیا،مصر بھی شام لیبیا،یمن اور صومالیہ بننے جارہاتھا،خون ریزی کا شدید خطرہ تھا،اس اثنا میں سعودی ملوک اور اماراتی شیوخ نے مصر کو چاروں خانے چِت گرنے سے بچانے کے لئے کردار ادا کیا،انہوں نے کہا ،جو ہونا تھا وہ ہوگیا، اب برسرِ اقتدار فوجی حکومت کی مدد کی جائے، چنانچہ انہوں نے مغربی ملکوں کی پابندیوں سے مصری خزانے کو پہنچنے والے نقصان کاازالہ اپنے پاس سے کرنے کا اعلان کیا،جتنی رقم مصری گورنمنٹ کو امریکہ ویورپی ملکوں سے روک لی گئی تھی،وہ اِن دوخلیجی ممالک نے ادا کردی، نیز ملک کو تنہا ہونے سے بچانے کے لئے ہر فورم پر ان کی تائید کی،یوں مصر خانہ جنگی اور افلاس سے بچ گیا۔
پاکستان بھی کئی بار مشکلات کا شکار ہواہے ، ہمیشہ سے ناگفتہ بہ حالات میں سعودی حکمرانوں نے آگے بڑھکر مددکی،ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں ہاتھ بٹایا، ایٹمی دھماکوں کے بعد ہزاروں بیرل تیل میں مدد کی،حالیہ شریف حکومت کے ابتدائی دنوں میں ملکِ عزیز کچھ اقتصادی مسائل کا شکار تھا،مملکت سعودی عرب نے ڈیڑھ ارب ڈالر بطور ہدیہ پیش کئے،بعد میں نکتہ چینوں نے اس برادرانہ فراخ دلی پر بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تبصرے وتجزیئے کئے،حقیقت یہ ہے کہ مشکل کی گھڑیوں میں سعودی و خلیجی ممالک نے دل کھول کرپاکستان سے بھر پورتعاون کیا۔
یمن میں انقلابی صورتِ حال پیدا ہوئی،تو سعودی عرب،قطر اور امارات نے آگے آکرمصالحت کرائی،علی عبد اللہ صالح کو باعزت نکلنے کا راستہ فراہم کیا،عزت اسے راست نہ آئی،انہوں نے حوثی باغیوں کے ساتھ مل کر منتخب صدر منصور ہادی کی حکومت گرانے میں مکمل ساتھ دیا،اس کے پاداش میں جب خلیجی اتحادنے حوثی باغیوں کے قبضے کو چھڑانے کے لئے ‘‘عاصفۃ الحزم’’کے نام سے آپریشن شروع کیا،تو علی عبد اللہ صالح بھی لڑنے مرنے پرتُل گئے،یہ تو اللہ کا کرنا ہواکہ سعودی عرب کے زیرِ کمان خلیجی اتحاد نے بڑی جانی ومالی قربانیاں دے یمن کا بیشتر حصہ واگزار کرادیا،اور منتخب حکومت بحال کی۔
شام کے مسئلے میں اس وقت پوری دنیا ایک طرف ،جبکہ سعودی، قطر اور ترکی دوسری طرف ہے،امریکہ نے دوغلی پالیسی سے کام لے کر دہشت گردی کو پروان چڑھایا،یورپی یونین نے بھی اِس ’’کارِخیر‘‘میں اُن کا ہاتھ بٹایا،ایران ،عراق اور روس نے سلگتی آگ میں ایندھن کی فراہمی کا اپنے اپنے حصے کا خوب خوب کام کیا،لیکن سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے پناہ گزینوں کی مدد بھی کی،جیشِ حُر اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو مبنی بر اعتدال پالیسی بھی دی،ترکی نے بھی دو ملین پناہ گزینوں کو اپنے یہاں نہایت پُروقار انداز میں رکھا۔ یہ بحران یہاں سے شروع ہواتھا،کہ مصر لیبیا اور یمن میں عرب اسپرنگ سے متأثر ہوکر کچھ بچوں نے اپنے سکول کے بلیک بورڈ پر بشار حکو مت کے خلاف نعرے لکھے،جس پر بر آفروختہ ہوکر شامی رجیم کے کارندوں نے ان بچوں کی تحقیق کی اور ان معصوم کلیوں کی انگلیاں کاٹ ڈالیں،
اس انتقامی اقدام پر عوام میں حکومت کے خلاف غیظ وغضب کی متلاطم موجیں اُمڈ پڑیں،یہ 2011 کا واقعہ تھا،بعد مین اس حکومت نے جو ظلم وستم کی تاریخ رقم کی ہے، دنیا کی سفّاک قوموں میں بھی اس کی مثال ملنا اگر محال نہیں ہے تو دشوار اور مشکل ضرور ہے،لبنان کی تنظیم حزب اللہ نے یہاں اپنے ماضی کے اچھے امیج کو بدنما کردیا،ایران کے مذہبی انقلابیوں نے بھی اپنی تاریخ اور ویژن کو یہاں مسخ کر کے رکھدیا،آگے چل کر بشار نے مخالفین پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرکے بہت سے بے گناہ نوجوانوں، بوڑھوں،عورتوں اور پھول جیسے بچوں کو تڑپا تڑپا کر موت کے گھاٹ اتاردیا،اس ظلم وبربریت نے یہاں انتقامی ظلم وجبر داعش کی صورت میں پیداکی،جس کی سرکوبی کے لئے عراق کے نوری مالکی نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے،
آخر میں اسی داعش کا بہانہ بناکر روس کے صدر پوتن نے شام میں فوجی مداخلت کردی،ایران، عراق ،شام اور روس پر مشتمل ایک اتحاد بھی وجود مین آگیا،ترکی نے روسی مداخلت اور اس کے اتحاد پر تحفظات کا اظہار کردیا،لیکن بالفعل مقابلہ نہیں کیا،البتہ اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے پر باربار روس سے احتجاج کیا،آخر کار تنگ آمد بجنگ آمد ایک روسی طیارے کو اُس وقت ترکی سرحد پر مار گرایاگیا،جب متنبہ کرنے کے باوجود وہ خلاف ورزی کرنے پر تُلا ہواتھا،ترکی کے اس ردّ عمل کو روس نے پیٹھ میں چُھرا گھونپنے سے تعبیر کیا،صدر پوتن اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے ترکی سے انتقام لینے کابھی کہا،معافی طلب کرنے کا بھی کہا،ایک روسی سیاستداں نے ترکی پر ایٹم بم گرانے کابھی کہا،کچھ پارلیمنٹیرین نے آیا صوفیا کی واپسی کا بھی فوری مطالبہ کردیا،مگر جو بات نمایاں طورپر سامنے آئی ہے،وہ یہ ہے کہ روس نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں،جس میں اُن مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا ہے،جو ترکی سے درآمد ہوکر روسی مارکیٹوں میں جاتی ہیں،
اس انتقامی بائیکاٹ سے ترکی کو اقتصادی نقصانات اور خساروں کا اندیشہ ہے،کرنسی بھی گر سکتی ہے،بے روزگاری میں اضافے کا بھی امکان ہے،مشکل کی اس گھڑی میں مملکت سعودی عرب اور قطر نے ترکی صدر طیب اردگان سے رابطہ کرکے اعلان کردیا کہ وہ تمام تر مصنوعات ومنتوجات جن پر روس نے پابندی لگائی ہے،وہ سب ہم دونوں ملک خریدینگے،لہذا ان سب اشیأ کی برآمد درآمد ہمارے یہاں کی جائے،برادرانہ اسلامی اور پڑوسی غیرت، حمیت اور حقوق کی یہ ایک لا زوال مثال ان دو خلیجی ممالک نے قائم کر کے دنیا کو بتادیا کہ اپنائیت کیا ہوتی ہے،اگلے کی عزتِ نفس کو بحال رکھ کرتعاون کیا چیز ہے،امداد کیسے دی جاتی ہے،فراخ دلی کونسا عمل ہے،جی جناب، یہ ہیں سعودی ،قطر اور دیگر خلیجی ملکوں کے وہ پوشیدہ اور با عزت اکرامات واحسانات جو اندھی آنکھوں اور مردہ ضمیروں سے اوجھل رہتے ہیں۔