ان صاحب کا ڈرائنگ روم ہمیشہ مہمانوں سے بھرا رہتا، مختلف شہروں سے لوگ آتے جاتے رہتے، اپنے مسائل، شکایتیں، تجاویز لئے، جن پر بحث چلتی رہتی، میزبان خوش دلی سے ہر ایک کی بات سنتا، جو ہو سکتا کر دیتا، نہ کر پاتا تو نہایت نرم لہجے میں معذرت کر لیتا۔ ایسا انداز جو انکار کی سب کلفتوں کو دھو ڈالے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے، نوے کے عشرے کا اوائل جب میاں نواز شریف کے پہلے دور کا آپریشن ہو چکا تھا اور شہر خاصی حد تک پُرسکون دکھائی دیتا تھا۔ یہ اخبار نویس ان دنوں کراچی میں زیر تعلیم تھا، اہل علم اور اہل خیر لوگوں سے ملنے کا اشتیاق رہتا۔ انہی دنوں ایک دوست کے ساتھ ایک جگہ جانا ہوا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ میزبان کا ڈرائنگ روم عملی طور پر پختون حجرہ یا سرائیکیوں کی بیٹھک کی طرح تھا۔ دروازے ہر ایک کے لئے کھلے تھے۔ چائے کا پیالہ اور تسلی کے دو بول تو لازمی ملتے، ان کے علاوہ بھی اگر کچھ ہو سکتا تو اس میں کوتاہی نہیں کی جاتی تھی۔ میزبان ایک نہایت متحرک سوشل ورکر تھے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ لوگوں کے کام کاج، مسئلے مسائل کے حل کے لئے بھاگ دوڑ میں گزرتا۔ شام کو سادہ سی محفل سجتی، جس میں آس پاس کے لوگ بھی آجاتے، گپ شپ ہوتی، کوئی اصلاحی بات، واقعہ، غور و فکر کے لئے کوئی نیا نکتہ…. طالب علموں کے لئے تربیت کا خاصا ساماں تھا، خاموشی سے ایک گوشے میں دبکے ہم سنا کرتے۔
ایک روز رش کم تھا، تیز بارش ہوئی تھی۔ یہی اس کا سبب تھا‘ یا اتفاق کہ صرف دو تین لوگ ہی آئے۔ ان میں میزبان کا ایک بے تکلف دوست بھی تھا۔ گپ شپ کرتے ہوئے اس دوست نے براہ راست سوال پوچھ لیا کہ تم اچھے خاصے پڑھے لکھے شخص ہو، مناسب وسائل ہیں، اپنی توانائی اور صلاحیتیں اپنے کاروبار میں صرف کرو‘ تو چند ہی برسوں میں پیسے کی ریل پیل ہو جائے گی، اس وقت بھی اچھا گھر، اچھی گاڑی اور خوشحالی تو ہے، لیکن اگر اس کو دوگنا، تگنا کر دیا جائے تو کیا حرج؟ یہ بات سن کر میزبان کے چہرے پر کشادہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ہنس کر وہ بولا، بھائی، اچھے طریقے سے گزارا ہو رہا ہے، تم مجھے پیسوں کے ہیر پھیر میں کیوں ڈالنا چاہتے ہو؟ دوست نے اصرار کیا تو وہ صاحب سنجیدہ ہو کر بولے: ”دیکھو! ایک سادہ سی بات یاد رکھو، دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں، ایک وہ جو اپنی زندگی خوبصورتی کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، وہ آسائش کے لئے تگ و دو کرتے اور اپنی زندگی کو آسان اور آرام دہ بناتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کو دوسروں کے لئے خوبصورت اور آسان بنانا چاہتے ہیں، یہاں موجود کانٹوں کو چن کر راہ ہموار بناتے اور لوگوں کی مشکلات کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلی طرح کے لوگوں سے مجھے کوئی شکوہ نہیں، ان کا حق ہے کہ اپنی زندگی اپنے انداز سے گزاریں، لیکن میرے نزدیک دوسری طرح کے لوگ اہم اور قابل تعریف ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا شمار دوسری قسم کے لوگوں میں کیا جائے، میری وجہ سے لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے، ان کی زندگی آسان اور مستقبل خوبصورت بنے“۔ یہ بات سن کر میں دم بخود رہ گیا۔ بڑے رشک کے ساتھ سوچا کہ کاش ہمارے معاشرے کے دوسرے لوگ بھی اس انداز میں سوچیں۔
ہمارے ہاں ایثار کیش لوگوں کی کمی نہیں، اب تو یہ فہرست خاصی طویل ہو چکی، عبدالستار ایدھی سے کام شروع ہوا تھا، اب کراچی کے ڈاکٹر ادیب رضوی سے لاہور میں مقیم اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب، پروفیسر ہمایوں احسان، ڈاکٹر اظہار ہاشمی جیسے لوگ، نادار لوگوں کے سفید موتیے کے مفت آپریشن کرنے والی تنظیم پی او بی کے ڈاکٹر انتظار حسین، ہیلپ لائن کے اخلاق الرحمن سے الخدمت کے عبدالشکور، غزالی ٹرسٹ سکولز کے عامر محمود، وقاص جعفری وغیرہ، لٹن رحمت میموریل ٹرسٹ، امین مکتب اور کتنے ہی فلاحی اداروں کے لئے پیرانہ سالی میں بے پناہ کام کرنے والے جسٹس (ر) عامر رضا خان سمیت بے شمار لوگ اپنی زندگیوں کو اس معاشرے، انسانیت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے مجھے اخوت سے پی او بی اور ہیلپ لائن سے الخدمت، غزالی سکول ٹرسٹ جیسے اداروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خلوص اور ایثار کے ان پیکروں کو دیکھ کر آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ اپنی نجی زندگیوں کو انہوں نے کس طرح تج دیا ہے۔ نعمت اللہ خان بیماری اور بڑھاپے کے باوجود جس طرح الخدمت کے لئے سرگرداں رہتے، وہ دیدنی تھا۔ ڈاکٹر انتظار بٹ کو میں نے نائجیریا کے انتہائی پسماندہ، دور افتادہ علاقوں میں آئی کیمپ کرتے دیکھا۔ صومالیہ، سوڈان، چاڈ اور نائجیریا جیسے نسبتاً بڑے ملک میں یہ حال ہے کہ دس دس بیس بیس لاکھ لوگوں کے لئے صرف ایک آئی سرجن ہے، ستر پچھتر ہزار مریض جن میں سے صرف ہزار پندرہ سو کے آپریشن ہو سکیں۔ ایسے علاقوں کے لئے بین الاقوامی چیریٹی تنظیم فیڈریشن آف اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (FIMA) ہر سال فری آئی کیمپس کا اہتمام کرتی ہے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم، جن میں بیشتر پاکستانی ڈاکٹر تھے، یہ سب چھ صبح سات بجے سے رات دس، گیارہ بجے تک مسلسل کام کرتے، ایک ایک ڈاکٹر سفید موتئے کے پچاس سے سو آپریشن روزانہ کرتا کہ زیادہ سے زیادہ مریض نمٹ جائیں۔
یہ چند نام صرف مثال کے طور پر لئے، ورنہ پاکستان اس حوالے سے خوش نصیب ملک ہے، جہاں ایسی بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، ہزاروں لوگ فلاحی کاموں میں جتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کو زمین کا نمک کہا گیا۔ تصور کریں کہ ایسے لوگ اگر نہ ہوں تو معاشرہ کس قدر جمود کا
شکار، ٹھہرے ہوئے گندے پانی کے جوہڑ جیسا ہو جائے۔ پاکستانی سرمایہ کاروں میں بھی اپنا مال لوگوں پر خرچ کرنے والوں کی کمی نہیں، جس فرد، تنظیم یا ادارے کی ساکھ اور اعتبار مستحکم ہو، عطیات کی اس کے پاس کمی نہیں ہوتی۔ سرمایہ کاروں کے حوالے سے البتہ اہل مغرب ہم سے بازی لے گئے ہیں۔ دنیا کے چند امیر ترین افراد میں سے ایک وارن بفٹ نے اس کی ابتدا کی اور اپنی دولت کا پچھتر فیصد حصہ چیریٹی کے لئے وقف کر دیا۔ بل گیٹس بھی اربوں ڈالر کی مالیت سے امیلڈاگیٹس ایسوسی ایشن بنا چکے ہیں، جو ایڈز، ملیریا اور دوسری سنگین بیماریوں کے خاتمہ کے لئے کام کر رہی ہے۔ ان نامی گرامی سرمایہ داروں کو دیکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ میں درجنوں ارب پتی اپنی دولت کا بڑا حصہ چیریٹی کے لئے دے چکے ہیں، مگر گزشتہ روز فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے کمال ہی کر دیا۔ نوجوان مارک اور اس کی اہلیہ نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر اپنے اثاثوں کا ننانوے فیصد حصہ (تقریباً پنتالیس ارب ڈالر اور ساڑھے چار سو ارب روپے) اپنی چیریٹی تنیظم ”چین مارک“ کے نام وقف کر دیا ہے۔ مارک زکر برگ نے اس موقع پر اپنی نومولود بیٹی کے نام ایک تاریخی خط بھی لکھا، جو مارک کے فیس بک صفحے پر موجود ہے۔ بقول مارک ”چین مارک انیشی ایٹو“ کا مقصد انسانی قابلیت کو بڑھانا اور نئی نسل کے بچوں میں برابری کو پھیلانا ہے۔ سنگین بیماریوں کے خلاف جدوجہد، ان سے نسل انسانی کو محفوظ کرنا، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنا اور ان محروم لوگوں کی رسائی میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مواقع لے آنا‘ ان کا مقصد ہے۔ مارک نے بڑی دل سوزی سے لکھا کہ ان میاں بیوی نے اپنی دولت کے ننانوے فیصد کا ایثار صرف اس لئے کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کو اپنی بیٹی اور اس کے طرح نئی نسل کے لئے زیادہ محفوظ، خوبصورت اور آسان بنایا جائے۔ مارک کا یہ خط پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مارک کے بقول یہ ان کی اپنی بیٹی سے محبت کا ثبوت بھی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پرانی نسل کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ نئی نسل کے لئے ایسا کرے۔
مارک زکر برگ کا خط پڑھتے ہوئے مجھے شدت سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ یہ جذبہ ہمارے ہاں بھی زیادہ سے زیادہ پھیلے، خاص طور پر ہمارے وہ سرمایہ دار جو لاکھوں، کروڑوں روپے عطیات پر خرچ کرتے ہیں، مگر انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ روز کسی بھوکے کو کھانا کھلانے سے زیادہ بہتر اس بھوکے کو بھوک کے چنگل سے نکالنا ہے۔ کسی کو مچھلی پکڑ کر دینے سے افضل اسے مچھلی کا شکار سکھانا ہے۔ ہمارے اردگرد پھیلی دنیا سے تاریکیاں اور بدصورتیاں تب ختم ہو سکتی ہیں، جب ہم لوگ اپنی زندگی کو خوبصورت بنانے سے زیادہ اس دنیا کو خوبصورت اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے پر توجہ دیں گے۔ یہی وہ سبق ہے، جو سیکھنے، سکھانے اور پھیلانے کی ضرورت ہے۔