میں تقریباً سولہ سترہ سال کا تھا جب بیمار ہونے کی وجہ سے والد کے ہمراہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کورٹر اسپتال گلگت گیا . اسپتال پہنچا تو یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ اسپتال میں جیسے جنگ چل رہی ہو . پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک شخص کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کے لواحقین نے اسپتال میں توڑ پھوڑ شروع کر دی کہ ڈاکٹر نے ان کا مریض جان بوجھ کر مار دیا ہے . میں خود حیران رہ گیا کہ آخر ایک ڈاکٹر کو کسی مریض سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے اور دوسرا اگر ڈاکٹر واقعی مریض کا مخالف یا دشمن ہے تو لواحقین مریض کو اس ڈاکٹر کے پاس لائے ہی کیوں تھے ؟ لواحقین کے اس عمل کی وجہ سے ڈاکٹر اور طبی عملہ خوفزدہ کھڑا تھا . جس ڈاکٹر پر الزام لگایا گیا تھا وہ ڈر کے مارے ایک کمرے میں جا چھپا . اس ہنگامے اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے باقی مریض لا وارث پڑے تھے کیونکہ طبی عملہ مشتعل ہجوم سے اپنی جان بچا رہا تھا . بڑی مشکل سے معاملات کی مکمل انکوائری کا کہہ کر مشتعل ہجوم کے جذبات کو قابو میں لایا گیا . ہم بھی ڈاکٹر کو چیک اپ کروائے بغیر گھر لوٹ آئے .
ہم اگر بحیثیت مسلمان اور بحثیت انسان کچھ ہی لمحے کیلئے سوچیں تویہ عمل کتنا احمقانہ اور غیر اخلاقی لگے گا، کیونکہ کوئی بھی ڈاکٹر کبھی بھی جان بوجھ کر اپنے ہی مریض کی جان لے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا البتہ وہاں طبی سہولیات کا فقدان ضرور ہوسکتا،وہاں طبی عملے کی کمی ضرور ہوسکتی ، مگر اس میں ڈاکٹر کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر نا انصافی ہے۔ بعد میں اس واقعے کی تحقیق سے بھی پتہ چلا کہ اسپتال میں طبی سہولیات ناکافی تھیں جس کی وجہ سے اکثر اس طرح کے واقعات ہو جاتے ہیں .
کسی بھی ملک کا شعبہ صحت ایک ایسا ادارہ ہے جو کہ نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر درس انسانیت کا پیروکار ہوتا۔ہمارے معاشرے میں شعبہ صحت سے منسلک لوگ باالخصوص ڈاکٹر ز اور طبی عملہ اکثر مختلف مسائل سے دو چار رہتے ، ہم حال ہی کے واقعات پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں بے شمار ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں جہاں ڈاکٹر کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ بہت سارے موقعوں پرلوگ تشدد کا راستہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
کسی بھی مہذب معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری کبھی بھی اس سوچ کو پروان نہیں چڑھا ئے گا کہ مریض کے مرض یا موت کا ذمہ دار ڈاکٹر ہوسکتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ملکی سطح پر اس شعبے کی بہتری کیلئے بہت سارے انتظامات عمل میں لائے جا سکتے ہیں ، یہاں سہولیات کا فقدان ہو سکتا ہے، یہاں گنے چنے کچھ لوگ اپنے فرائض میں کوتاہی سے کام لیتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ایک ڈاکٹر جان بوجھ کر کسی مریض کے علاج پر توجہ نہ دے یا خدانخواستہ اسکی موت کا سبب بنے ۔
ہم نے تو ایسی سیکڑوں مثالیں دیکھی ہیں جہاں ڈاکٹر اپنے مریض کی جان بچانے کیلئے اپنی ہی جان کو خطرے میں ڈال دیتا ہے . کورونا وائرس کی وبا کے دوران پاکستان کے کئی بہادر اور نڈر ڈاکٹروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کورونا کے مریضوں کا علاج کیا . کئی ڈاکٹرز اور طبی عملے کے کارکن تو اس جنگ میں ہمارے لیے شہید بھی ہو گئے . ڈاکٹرز کی شہادت کی خبریں آتی رہیں لیکن عوامی سطح پر حفاظتی انتظامات کا خیال مناسب انداز میں نہیں کیا گیا . جلسے جلوسوں سمیت ہر قسم کی تقریبات جاری رہیں .
سب سے بڑی مثال موجودہ دور میں کرونا وائرس کی صورتحال اور ملک کے مختلف حصوں میں ڈاکٹرز کی قربانیاں ہمارے سامنے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف انتہائی بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں طبی عملے کے ساتھ اسکی اپنی ہی قوام کے ناروا سلوک کی کئی مثالیں ہمیں آئے روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان تمام جاہلانہ رویوں سے ہٹ کر اپنے طبی عملے پر بھروسہ رکھیں اور ان پر اعتماد کریں اور باالخصوص کسی بھی ایمرجنسی کی صورت حال میں جب آپ اپنے کسی عزیز کو لیکر ہسپتال پہنچے تو طبی عملے سے مکمل بھروسہ اور خوش اسلوبی سے پیش آئیں اور یہی رویہ مہذب قوموں کی پہچان ہے۔
ڈاکٹرز اور طبی عملے پر اعتماد کریں ، ان پر بھروسہ کریں .