گزشتہ ماہ میں نے وضع داری کے خود ساختہ اصول کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ جماعت اسلامی کو زیر بحث نہیں لائوں گا مگر جب کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ’’شاندار ‘‘شکست کے بعد پیش کی جا رہی انمول قسم کی تاویلات اور توجیہات سامنے آئیں تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ آپ نے اس غریب دیہاتی کا وہ لطیفہ تو سنا ہو گا جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو گئی اور وہ شہر کے معززین میں شامل ہو گیا ۔اس کے بیٹے کی شادی تھی ،بچوں نے سمجھایا ،ابا جی ! اب ہم معزز ہو گئے ہیں ،آپ کو کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے لڑکی والوں کو ہماری ذات معلوم ہو۔ وہ بیچارہ معزز ہونے کی ایکٹنگ کرتا رہا لیکن جب ڈھول بجا تو اٹھ کر ناچنے لگا اور پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے۔ بعد میں بچوں نے سخت خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،اباجی ! آپ کو سمجھایا بھی تھا مگر آپ نے ظاہر کر دیا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا ،پتر !میں نے خود پر بہت جبر کیا لیکن جب ڈھول بجا تو پھر رہا نہیں گیا۔
میں نے بھی سراج الحق صاحب سے گفتگو کے بعد یہ طے کیا تھا کہ اب قلم کا رُخ ان نیک صفت لوگوں کی طرف نہیں کرنا۔ یہاں تک کہ انہوں نے کراچی کو استنبول بنانے کا وعدہ کیا تو میں تب بھی خاموش رہا مگر کراچی میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی ’’شاندار‘‘ شکست کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کے بعد مجھ سے رہا نہیں گیا۔ ہمارے ایک دوست دلچسپ پیرائے میں بتاتے ہیں کہ دن بھر کی پولنگ کے بعد جب تمام جماعتوں کے ارکان اپنے اپنے انتخابی دفاتر میں نتائج کے منتظر ہوتے ہیں تو جماعت اسلامی کے کیمپ سے اچانک زوردار نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے ،سب ہڑ بڑا کر دیکھتے ہیں کہ انہیں کیا ہوا،کہیں جیت تو نہیں گئے ؟جب ولولہ انگیز نعروں کا سلسلہ تھمتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس حلقے سے گزشتہ انتخابات میں بھائی محمد اخلاص نے 570 ووٹ لئے تھے مگر آج بھائی عصمت اللہ نے 695 ووٹ حاصل کئے ہیں الحمد للہ 125 ووٹوں کا اضافہ ہوا ہے اور یہ جشن طرب اسی خوشی میں برپا کیا جا رہا تھا۔
اس کے بعد ’’شاندار‘‘شکست سے دوچار ہونے والے بھائی عصمت اللہ اخلاقی فتح پر وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے عالمی سازشوں کو اپنی شکست کی وجہ قرار دیتے ہیں ،انتخابی نظام کے لتے لیتے ہیں ،دیانتدار قیادت کو مسترد کرنے پر عوام کو کوستے ہیں اور بیسیوں افراد پر مشتمل یہ ’’جم غفیر ‘‘پرامن طور پر منتشر ہو جاتا ہے۔ چند روز بعد مصر،ترکی ،تیونس،الجزائر یا کسی اور ملک میں ان کی ہم خیال کوئی جماعت اپنے ملک کے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بیچارے بیگانی شادی میں عبداللہ کی طرح دیوانے ہوئے جاتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ آخر ان کی کامیابی کی وجہ کیا تھی ؟اور ہماری شکست کے اسباب کیا ہیں؟
ایم کیو ایم نےNA 246 کے ضمنی الیکشن کی طرح اس مرتبہ بھی اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کو بھی شکست دی ہے جو اسے دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اب تو آصف زرداری کو بھی یہ خیال آتا ہو گا کہ اگر گزشتہ دور حکومت میں پیپلزپارٹی کو بھی ایم کیو ایم کی طرح مظلوم بنا دیا جاتا تو یہ طبعی موت ہرگز نہ مرتی۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ایم کیو ایم کے خلاف جتنی انتقامی کارروائیاں کی گئیں اس کے نتیجے میں اس کی مقبولیت کے گراف میں اضافہ ہوا،متحدہ کا وہ ووٹر جو کسی وجہ سے ناراض تھا ،وہ بھی یہ سوچ کر لوٹ آیا کہ اس کڑے وقت میں اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ توقع تو تھی کہ ایم کیو ایم میئر بنانے کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کر لے گی مگر کسی کی تائید وحمایت سے تشکیل پانے والا جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا اتحاد اس قدر ’’شاندار‘‘ شکست سے دوچار ہو گا، یہ شاید کسی نے نہیں سوچا ہو گا۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان جو میئر کے خواب لیکر یو سی 18 کے انتخابی دنگل میں اترے تھے ،انہوں نے 700 کے لگ بھگ ووٹ لئے جبکہ ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے ایک غیر معروف امیدوار مظہر کاکا نے تقریباً 3200 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔
تحریک انصاف کے علی زیدی کے میئر بننے کی خواہش بھی حسرت بن کر رہ گئی ۔ان دونوں جماعتوں کے لئے اس سے بڑھ کرسبکی اور کیا ہو گی کہ مسلم لیگ (ن) نے ان کے مقابلے میں زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ میرے خیال میں تو کراچی کے لوگوں نے اس اتحاد کے نام پر ہونے والی سیاسی منافقت کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ یہ غیر فطری اتحاد ایسے ہی تھا جیسے کوئی مذہبی شخصیت اور فلمی اداکارہ مل کر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیں۔ منافقت کا یہ عالم تھا کہ کراچی کو استنبول بنانے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے بلدیہ ٹائون کی یونین کونسل نمبر 34کے امیدوار نے عمران خان اور سراج الحق کے ساتھ سزا یافتہ مجرم کی تصویر بھی پوسٹر پر چھاپ دی۔ مگر اس حیل وحجت اور تگ و دو کے باوجود ووٹ نہ ملے تواب عوام پر تبریٰ بھیجا جا رہا ہے کہ انہیں اپنے نمائندے منتخب کرنے کا سلیقہ نہیں ،یہ نرے احمق ہیں،انہیں کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں،ان کے ساتھ یہی ہونا چاہئے۔ وغیرہ وغیرہ۔
ایم کیوایم کو کراچی کی فتح مبارک مگر مجھے اس بات کا افسوس رہے گا کہ اب کراچی استنبول نہیں بن پائے گا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کی پہچان یہ ہے کہ انہوں نے استنبول کا میئر بننے کے بعد پرانے شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ بعد ازاں وہ عام انتخابات میں تعمیر و ترقی پر مبنی یہی رول ماڈل لیکر عوام کے پاس گئے تو انہیں پورے ملک کو سنوارنے کا مینڈیٹ دے دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں کراچی کو استنبول بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر انہیں یہ موقع نہیں دیا گیا حالانکہ ایک مرتبہ ان کی بات پر بھروسہ کر لیا جاتا تو کراچی میں رنگ و نور اور آزادیوں کی برسات ہو جاتی۔ وہ کام جو بھٹو جیسا آزاد خیال شخص نہ کر سکا وہ ان کے ہاتھوں ممکن ہو پاتا۔اس کی زندہ مثال خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت کا مضبوط قلعہ سمجھا جانے والا دیر ہے جسے انہوں نے اپنے طویل دور اقتدار کے دوران انقرہ بنا ڈالا ہے اور اب لوئر دیر ہو یا اپر دیر،یہ علاقے تعمیر و ترقی کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ چمچماتی سڑکیں ،جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتال ،اعلیٰ تعلیمی ادارے ،خوشحال لوگ دیکھ کر انقرہ بھی شرما جائے۔ بس یہ صورتحال دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے اور دل سے اِک ہوک سی اٹھتی ہے کہ آہ ! کراچی استنبول نہ بن پایا۔
بشکریہ روزنامہ”جنگ”