حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے ن لیگ کے دیرینہ کارکنوں کی ایڈجسمنٹ شروع،وزیر تعلیم کے ہمراہ ن لیگ کے سینئر کارکن مشیر تعینات۔
نچوڑ: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے سابقہ اور دیرینہ مشورے کے مطابق آزاد ریاست جموں کشمیر نام بدل "کالا ٹھاکہ” رکھ دیا جائے،حکومت اس سلسلے میں اپنااصولی کردار ادا کرے اور لاقانونیت کے اس دور میں امتیازی سلوک ختم کیا جائے تاکہ غریب عوام کو بھی غیر قانونی کام کرنے،ریاست کے مال اور اختیارات کو اپنے مورثی اختیاراور دادا وراثت سمجھنے،شہر میں اچھی اور قیمتی جگہوں پر قبضہ کرنے،دریا کے کنارےموجود جگہوں کو 500سو روپے کنال لیز پر لینے اور دیگر ان تمام غیر قانونی و غیر آئینی کام کرنے جو امرا،وزرا،اور بیوروکریسی،اور دیگر سرکاری مشینری کر رہی ہے، وہ کرنے کا موقع ملے۔میرے خیال سے موجودہ حکومت یہ انقلابی قدم اٹھا سکتی ہےکیونکہ لاقانونیت،اقربا پروری،کرپشن میں ریکارڈ پہلے ہی قائم ہوچکا ہے لہذا اب یہ کام بھی کر دیا جائے،تو پھر بلے بلے۔
خبر گرم ہے کہ کابینہ کے انتہائی پڑھے لکھے وزیر،وزیر تعلیم بیریسٹر افتخارِ گیلانی صاحب نے پارٹی کے دیرینہ وفادار کارکن کو اپنے ساتھ مشیر تعینات کیا ہے۔سب سے پہلے ایک بات واضع کرتا چلوں میں ہمیشہ کسی بھی پارٹی کے اس کارکن کے حق میں رہا ہوں جو پارٹی سے نظریاتی وابستگی رکھتا ہے۔اور اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہے لیکن ایک کارکن کے حقوق جائز اور آئینی ہونے چاہیں۔کارکن کو اس بات کا پتہ ہونا چاہیے کہ کیا لالی پاپ ہے اور کیا اصل اور جائز حق۔
اب بات کرتے ہیں مشیر تعلیم لگنے کی۔تو سب سے پہلا سوال میرا انتہائی پڑھے لکھے وزیر موصوف سے ہےکہ جناب؟؟؟؟آپکو کس قانون اور کس آئین کے تحت اس بات کا استحقاق دیا گیا ہےکہ آپ اپنا مشیر رکھیں؟؟؟؟اور اگر آپکو مشیر رکھنے کا آئینی استحقاق حاصل تھا تو جناب نے گزشتہ ساڑھے 4 سال مشیر کیوں نہیں لگایا؟؟؟کیا اپنے کارکنوں کو لالی پاپ دینے کیلئے یہی آخری 3 مہینے ملے تھے؟؟؟؟
مجھے پورا یقین ہےکہ وزیر تعلیم میری راہنمائی کیلئے مجھے جواب ضرور دیں گے،لیکن ترمیمی ایکٹ 1974 کی شق نمبر 11 اور شق نمبر 14Aکے مطابق صرف صدر آزاد کشمیر،اور وزیراعظم کو اپنے ساتھ مشیر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔موجودہ آئین میں انکی تعداد مینشن نہیں لیکن اگر لفظی ترجمہ کیا جائے تو تعداد بھی محدود ہے۔اور وزیراعظم کے مشیر کی تعداد پر 2008میں ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔اب آئینی طور پر کوئی بھی وزیر قانونی اور آئینی طور پر اپنا ایڈوائزر نہیں رکھ سکتا۔کیونکہ وزیر کی اپنی حیثیت ایک مشیر کی ہے تو یہاں مشیر کا مشیر رکھنا کا کوئی قانونی و آئینی حق موجود ہی نہیں ہے۔وزیر عوام کا نمائندہ ہوتا ہے جوعوامی مینڈیٹ لیکر اسمبلی میں پہنچتا ہے اور وزیراعظم کی کابینہ میں شامل ہوکر بطورِ عوامی ایڈوائزر کام کرتا ہے۔لیکن چونکہ آزاد کشمیر صدور،وزراءاعظم، وزرا،مشیران،بیوروکریسی،اداراوں کے سربراہان اور طاقتور کیلئے یہ ریاست "کالا ٹھاکہ”ہے تو وہ جو مرضی کریں انکو کوئی پوچھنے والا نہیں۔وزیر تعلیم بیریسٹر افتخارِ گیلانی ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور ویل ایجوکیٹڈ پرسن بھی ہیں،کم از کم ان سے اس طرح کے غیر آئینی،غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی تھی۔ہم انہیں غیر روایتی سیاست دان سمجھتے رہے لیکن وہ بھی وقت کے سیاسی حاتم طائی نکلے، جسے صرف ووٹ بینک چاہیے اس کے لیے چاہے آئین،قانون،اور اخلاقیات کو توڑنا پڑے چہ جائیکہ۔
میں عوام کی یاددہانی کیلئے تھوڑا ماضی میں لیے چلتا ہوں۔2016 میں ن لیگ کی حکومت بنتے ہی وعدوں کے پورا ہونے کا وقت آیا۔وہ کارکن جو اپوزیشن نہیں حکومت اس بار کے نعرے مار مار کر اپنے گلے بٹھوا چکے تھے ،خوش ہوئے کہ اب سکھ کا سانس ملے گا،ہماری اکاموڈیشن ہوگی۔لیکن حکومت میں آنے کے بعد جیسے گرگٹ رنگ بدلتا ہے، ایسے ہی ن لیگی وزراء اور دیگر حکومتی مشینری نے رنگ بدلا،وزیر اعظم ہاؤس اور وزیروں کے دروازے کارکنوں پر بند کر دئیے۔میں لاتعداد ایسے واقعات یہاں پر کوڈ کر سکتا ہوں، جہاں کارکنوں کی تزلیل سے لیکر انکو دھتکارا گیا لیکن بات موضوع سے ہٹ جائیگی۔ چونکہ ہم آزاد کشمیر کے رہنے والے عوام نہایت ہمدرد اور سادہ دل ہیں ، اسی لیے ہم سب بھول جاتے ہیں۔وزیر تعلیم بیریسٹر افتخارِ گیلانی صاحب نے پترینڈ کے مقام پر اپنے ایک سابقہ جلسے میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے جوش خطابت میں اپنے ایک سابقہ کارکن کو گالیوں سے نوازا اور جلسے میں موجود کارکنان جو شائد اس کارکن کے رشتہ دار بھی تھے "شیر شیر شیر”کے نعرئے لگاتے رہے۔۔۔۔۔دیکھا کتنے سادہ دل لوگ ہیں ہم؟؟؟؟
ایک پڑھا لکھا،باشعور اور غیر روایتی سیاستدان،جو نوجوان بھی ہو اور وزیر تعلیم بھی، کو اسکے ایسے جلسہ عام میں لغو زبان استعمال کرنا سمجھ میں نہیں آتا،لیکن چلیں ہم اسے "ہیٹ آف دا موومنٹ” کہہ کر مٹی ڈال چکے ہیں،اور لوگ بھی بھول گئے۔اب ساڑھے 4 سال تمام دروازہ جات بند رکھنے کے بعد اب جاکر کارکنوں کیلئے دوبارہ دروازے کھولے جارہے ہیں۔اور کارکن چونکہ سادہ دل ہیں،اور وفادار بھی اسی لیے وہ سب بھول کر پھر ساتھ ہوچلے ہیں۔
وزیروں نے اب اپنے مشیر رکھنا شروع کر دئیے ہیں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے حاتم طائی کے پیٹ پر لاتیں گھونسے،مکے مارنا،اسکی روح قبر میں بھی تڑپتی ہوگی۔یہاں تک بات آئینی اور قانونی تناظر میں ہوئی۔اب آتے ہیں اخلاقیات کی طرف،اپنے کارکنوں کو عزت اور تکریم کے ساتھ اکاموڈیٹ کرنا، اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے۔چونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت،کوئی بھی لیڈر اپنے کارکنوں کے سوا کچھ بھی نہیں،کارکنوں کو سپورٹ کرنے کے ہزارہا طریقے موجود ہیں،وزیر تعلیم آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیر کر مشیر تعلیم لگانے کی بجائے انہیں اپنے آئینی استحقاق کے مطابق اگر اکاموڈیٹ کرتے تو کہیں زیادہ مناسب ہوتا۔اور یہ اکاموڈیشن اگر حکومت میں آنے کے فورا بعد کی جاتی تو کتنا ہی اچھا ہوتا،کم از کم کارکنوں کو ساڑھے چارسال حکومت کے دروازے تو نا تکنے پڑتے۔
وزیر تعلیم چونکہ ایک بہت ہی اہم وزرات ہے اور اسکا تعلق براہ راست آنے والی نسلوں کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے لہذا اس محکمہ کے فیصلے بہت نازک ہونے چاہئیں۔اول تو وزیر تعلیم کوئی مشیر رکھ ہی نہیں سکتے ، اب اگر وہ رکھ رہے ہیں تو اسکی تعلیمی قابلیت دیکھنی ہوگی۔کیا وہ PHDہولڈر ہے۔اسکی تعلیمی میدان میں کیا کارکردگی ہے؟؟؟؟کیا اس نے تعلیمی میدان میں غیر معمولی کارنامے سر انجام دئیے ہیں؟؟؟؟کیا اسکے پاس قومی یا بیرون ممالک کے نظام تعلیم کی معلومات ہیں؟؟؟؟
یا آپ نے صرف اپنے ووٹ بینک کیلئے مشیر تعلیم تعینات کر دیا؟؟؟میں آج تک میرے قابل عزت بھائی محترم ندیم زرگر صاحب سے نہیں ملا،نا ان کو جانتا ہوں۔انکی پارٹی کے ساتھ بے انتہا محبت اور قربانیاں ہوں گی لیکن مشیر تعلیم لگانا نا صرف غیر آئینی و غیر اخلاقی ہوگا بلکہ ان کی ذات کے ساتھ بھی دشمنی ہوگی، انہیں پہلے 2019میں مشیر لگا کر ہٹا دیا گیا، پھر اب 2021میں تین مہینے کیلئے دوبارہ مشیر کا نوٹیفیکیشن تھما دیا گیا؟؟؟یہ اقدام کسی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے عاقل انسان کیلئے ناقابل فہم ہے۔لیکن چونکہ ہمارے ہاں لوگ انتہائی مخلص،ہمدرد،اور وفادار ہیں لہٰذا ہم سب بھول کر کسی کے ایک اچھے بول پر فدا ہوجاتے ہیں۔
میرا قوی یقین ہے کہ آنے والے حکومت کے آخری دنوں میں وزیر اعظم اور وزراء کے مشیر بھی اپنے مشیر رکھیں گے،پھر انکے مشیر اپنے مشیر رکھیں گے،پھر سمال مشیر، میڈیم مشیر،لارج مشیر،ایکسٹرا لارج مشیر رکھے جائیں گے۔
آئین و قانون جائے تیل لینے،یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔نہیں نہیں جملہ غلط ہوگیا،جسکی لاٹھی۔۔۔۔ اس کا آئین و قانون۔۔۔۔۔
میری پھر سے ایوان اقتدار میں بیٹھے عوام کی تقدیرکا فیصلہ کرنے والوں سے یہ اپیل ہوگی کہ اس ریاست کو عملی طور پر "کالا ٹھاکہ”بنایا جائے، جہاں امیر سے لیکر غریب تک سب کو آئین اور قانون کی پامالی کا حق بلا امتیاز حاصل ہو،اور تمام طبقے یکسانیت کی بنیاد پر زندگی گزار سکیں۔