جدید دور کا میڈیا،انجام کیا ہوگا؟؟
حمد نواز
20 ویں صدی اپنے آخری کواٹرمیں ’’ابلاغ کی صدی ‘‘کہلائی جانے لگی۔ترقی یافتہ دنیا کے تھینک ٹینک اور چوٹی کے علمی و تحقیق حلقے اس پر متفق تھے کہ حیران کن ترقی کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی۔اتنی تیزی سے انسانی ارتقا میں انقلاب برپا کرنے والی ایسی ترقی کسی اور فیلڈ میں نہیں ہوئی ۔اس کی بدولت دنیامیں ابلاغ عامہ میں ایسے ایسے معجزات برپا ہوئے کہ ماس کمیونیکیشن کی سائنس کے بانی پروفیسرو لبر شرائم اس کی ترقی کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ’’ اگر انسانی تہذیب کی ارتقا کی گھڑی کے ڈائل کی گھنٹے کی سوئی کے ایک چکر لگانے کے برابر ہے۔تو ماس کمیو نیکیشن کی پیدائش ۱۱ بجکر ۵۹ منٹ ۵۹ سکنڈ پر ہوئی۔
ولبر شرائم نے وضاحت 1980ء کی ابتدا میں کی حالانکہ اس وقت انٹرنیٹ ٹیکنالوجی آنے میں ابھی بارہ،تیرہ سال باقی تھے۔’’ سٹیلائیٹ کمیونیکیشن ‘‘ نے میڈیا کی طاقت اور اہمیت کو یکدم کئی گنا بڑھادیا۔ میڈیا اپنی ابتدا سے ہی ’’معاشرے کا آئینہ ‘‘ کہلایا جا رہا تھااور اس طرح اس کی اہمیت پہلے بھی کم نہ تھی لیکن جب دنیا میں پہلی با رمحمد علی کلے کی باکسنگ کی لائیو کوریج دکھا ئی گئی تو ابلاغ عامہ کی دنیا میں ایک اور معجزہ برپا ہوا کیونکہ آواز ہزاروں میل بذریعہ ریڈیو براڈکاسٹنگ پہنچانا ایک حیران کن کمال تھا،پھر یہ کہ جو بولتا تھا اس کی تصویر بھی ٹی وی پر آئی اور واقعات کی ریکارڈ کوریج visuales کے ساتھ ہوا کے دوش پر گھر گھر پہنچنے لگی۔
گویاواقعات کو نہ صرف اخبار میں پڑھا جانے لگا بلکہ ٹی وی پر دیکھنا بھی ممکن ہو گیا۔ سٹیلائٹ کمیونیکشن کا کمال یہ ہو اکہ صرف ریکارڈ ہی کیوں بلکہ جو جب واقع ہورہا ہے‘ جہاں ہورہا ہے‘ وہیں سے ساتھ ساتھ ہو بہو بذریعہ فوٹیج دکھائی جائے۔ یہ حیرت میں ڈال دینے والی پیشرفت کمیونکیشن ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہوئی۔ ابلاغ عامہ کے مختلف نوعیت کے پیغامات مثلاًخبریں ، تبصرے و تجزیے، معلوماتی فیچر ڈرامے، کارٹون اور مزاحیہ و تفریح کے پروگرامز کی تیاری کے پیشہ ور پیغام سازوں جن میں ایڈیٹرز، رپورٹرز، اینکر پرسن ، کالم نویس، ڈرامہ نگار ،فوٹو گرافر، کارٹونسٹ اور دیگر اراکین دن رات اپنے اپنے پراڈکٹس کی تیاری میں سرگرم ہے۔ جنہیں میڈیا کے ایجنڈے کے طورپر میڈیا چینلز عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں۔
قارئین !خصوصاً میڈیا لارڈز، صحافیٍ حضرات، اسکالرز، سٹوڈنٹس اور اساتذہ کرام ابلاغیات پر غور فرمائیں کہ ابلاغ عامہ کی مختصر لیکن جدید تاریخ میں میڈیا کس قدر عدم توازن کا شکار ہوچکا ہے، گزشتہ صدی اگر اپنے آخری پچیس سالوں میں’’ کمیونیکشن سنچری‘‘ کہلائی تو اس کا سبب محض صحافی کی پیغام سازی نہیں بلکہ کمیونیکشن ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز پیش رفت ہے جس نے واقعے کے منظر اور اس کی رپورٹنگ کو آپ کے گھر تک ٹی وی سکرین بھی پہنچا دیا ،
کمیونکیشن ٹیکنالوجی کے، بلکہ دنیا بھر میں میڈیا کے ایجنڈے کا جائزہ لیا جائے تو 1980ء سے ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں بار بار یہی جواب آرہا ہے کہ میڈیا کے دوسرے پوٹینشل پیغام سازی ، ارتقاء کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد محدود اور یکساں ہوگیا ہے یعنی انفرادی شخصیت سے محروم ہوچکا ہے ۔
خاکسار کا مشاہدہ ہے کہ میڈیا کے پہلے پوٹینشل( کمیونیکیشن ٹیکنالوجی) کو کنٹری بیوٹ کرنے والوں نے اپنے کام و خدمات کو آگے بڑھانے کے لئے جتنا فوکس کیا اتنا ہی پیغام سازوں( صحافیوں) کی فوج تقلید، مفادات اور سست روی کا شکار ہوگئی۔ برس ہا برس سے میڈیااس چار نکاتی ایجنڈے کو لے کر چل رہا ہے جس کی اصل میں تکمیل اخبارات اور جریدوں نے ہی کر دی تھی۔ یوں ایک دوسرے کی تقلید میں دنیا بھر کا میڈیا ایجنڈہ یکسانیت کا شکار ہے۔
یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ میڈیا انسانی معاشرے کا آئینہ ہے اور جو تصویر ہے وہی دکھاتا ہے ،میڈیا کیسے حقیقی تصویر دکھا سکتا ہے کیونکہ سوال یہ بھی ہے کہ ہر ملک کے عوام کو آزادی صحافت نصیب ہے بھی یا نہیں؟ میڈیا کے ایجنڈے پرطاقت ور معاشرے کے پانچ سات طبقات یعنی حکمران و سیاستدان، بزنس مین ، شوبز پینل، سپورٹس مین، مذہبی لیڈر اور دوسرے پریشر گروپس حاوی ہیں۔ میڈیا باہمی تقلید میں بری طرح یکسانیت کا شکار ہو کر اپنی انفرادی شناخت قائم کرنے میں ناکام ہے اور روایتی کام کررہا ہے، وہ اپنے پوٹینشل میں کروڑوں لوگوں تک رسائی کے باوجود روایتی پانچ مقاصد کو لے کر چل رہا ہے،
اس میڈیا میں ترقی پذیر دنیا کی اکثریتی دیہی آبادی کتنی جگہ پائی جاتی ہے؟کم خوراکی، جہالت اور بیماریوں میں مبتلاء لوگ طاقتوروں کے مقابلے میں میڈیا پر کتنے نمایاں ہیں؟ اور ان لوگوں کے لئے میڈیا کے نشریاتی مواد میں کتنا وقت اور کتنی جگہ ہے؟ اتنی صحافت کو محدود کر دینے سے کیا تخلیق اور ارتقاء مر نہیں گیا؟مرا نہیں تو لاغر ضرور ہے ۔ امریکی میڈیا بھی صرف اپنے مفادات کی پرستش میں مگن ہے۔ دنیا میں رویوں کی غیر متوازن تبدیلی کا ذمہ دار میڈیا ہے ۔ آج کے دور میں میڈیا سرد جنگوں کا سافٹ ویپن بن کر تنازعوں کے حل کے بجائے چنگاریاں بھڑکانے کا سبب بنتا جارہا ہے۔۔۔آخر کاراس کا انجام کیا ہوگا؟ ذرا سوچئے!