(1) بلڈ ٹیسٹ کے لیے اپنا خون نکلوانے یا کسی شدید ضرورت مند مریض کو خون کا عطیہ دینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا؛ البتہ اگر خون دینے سے اتنی جسمانی کمزوری لاحق ہونے کا اندیشہ ہو کہ روزہ رکھنے کے قابل نہ رہے تو روزے کی حالت میں اس سے اجتناب کرے۔
(2) کان میں دوا یا تیل ٹپکانے یا دانستہ پانی ڈالنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، سوائے اس کے کہ خدانخواستہ کسی شخص کے کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو اور اس سے دوا یا پانی رِس کر معدے یا دماغ تک پہنچ جاتا ہو، تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔
(3) ہماری تحقیق کے مطابق‘ آنکھ میں دوا ڈالنے یا کسی بھی قسم کا انجکشن لگانے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے، بعض علماء کے نزدیک اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
جس مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث میں صریح حکم نہ ہو، وہ مسئلہ اجتہادی کہلاتا ہے، اس میں لوگوں کو جس عالم پر اعتماد ہو، اُس کے فتوے پر عمل کریں۔ ڈاکٹر وھبہ الزوحیلی لکھتے ہیں: ”انجکشن جلد کے اندر پٹھوں میں یا رگوں میں لگانا ہو، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں نہ لگائے، افطار کے وقت تک انتظار کرے، اگر رگوں میں خون چڑھائے گا تو روزہ فاسد ہو جائے گا‘‘ (فقہ الاسلامی وادِلّتہ، جلد3، ص: 1412)۔
(4) روزے کی حالت میں قَے آنے کی فقہائے کرام نے 24 ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں، ان میں سے صرف دو صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے: (الف) بے اختیار منہ بھر کر قَے آئے اور اُس میں سے کچھ مواد واپس نگل لے، (ب) طبعی مجبوری کے تحت جان بوجھ کر قَے کرے، جسے عربی میں ”اِسْتِقَاء‘‘ کہتے ہیں، اگر ایسی قَے منہ بھر کر آ جائے تو خواہ واپس حلق میں کچھ بھی نہ نگلے‘ روزہ ٹوٹ جائے گا۔ (ج) باقی صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔
(5) نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبانی نیت ضروری نہیں ہے، مستحب ہے۔ اگر رات ہی سے نیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اِس صورت میں ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ”میں اللہ تعالیٰ کے لیے کل کے روزے کی نیت کرتاہوں‘‘۔ صبح صادق یعنی سَحری کے وقت یا سَحری کے بعد کرنا چاہے، تو ان الفاظ کے ساتھ نیت کرے: ”میں اللہ تعالیٰ کے لیے آج کے روزے کی نیت کرتا ہوں‘‘۔ اگر نصف النہار شرعی سے پہلے نیت کرے تو یہ کہے: ”میں آج صبح سے روزے سے ہوں‘‘۔ اگر دل میں نیت ہے اور زبان سے روزے کی نیت کے الفاظ ادا نہیں کیے، تو اس سے روزے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگررات سے روزے کی نیت کی ہے تو تب بھی سحری کر سکتا ہے۔
(6) سَحری سے پہلے غسل جنابت واجب ہو چکا تھا مگر سَحری ختم ہونے سے پہلے غسل نہ کر سکا یا دن میں روزے کے دوران نیند کی حالت میں جُنبی ہو جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور نہ ہی اِس سے اجر میں کمی واقع ہوتی ہے؛ البتہ واجب غسل کو اتنی دیر تک مؤخر کرنا کہ ایک فرض نماز کا وقت گزر جائے، مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ اِس سے نماز قضا ہو جائے گی۔
(7) وضو کے دوران مسواک کرنا عام دنوں میں بھی سنّت ہے اور رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی سنّت ہے، خواہ عصر کے وقت یا عصر کے بعد کرے، حضرت عامرؓ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں: ”میں نے بہت مرتبہ نبیﷺ کو روزے میں مسواک کرتے ہوئے دیکھا‘‘ (ترمذی:725)۔ روزے کی حالت میں فقہائے احناف نے مسواک کی اجازت دی ہے، خواہ وہ خشک ہو یا تر یا اس میں کوئی ذائقہ محسوس ہوتا ہو، تر مسواک کی لکڑی کاکوئی ریشہ حلق میں چلا گیا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ منجن، ٹوتھ پاؤڈر اور پیسٹ اس سے مختلف ہے کہ اس میں ذائقہ بہت محسوس ہوتا ہے، نہ اس پر مسواک کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ مسواک کی سنت ادا کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے، حتی الامکان روزے کی حالت میں اس کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، کیونکہ اگر اس کے ذرّات حلق میں واضح طور پر محسوس ہوں اور اس کا قوی اندیشہ بھی ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں روزہ فاسد ہوجائے گا، الغرض منجن یا ٹوتھ پاؤڈر یا پیسٹ سے ممانعت کا مشورہ احتیاط کی بنا پر ہے کہ بعض اوقات غیر ارادی طور پر اس کے ذرات حلق میں چلے جانے کا امکان رہتا ہے۔
(8) روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کر سکتے ہیں، ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں کو تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(9) دَمے کا مریض جو آلۂ تَنَفُّس (Inhaler) کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا، وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اگر یہ مرض دائمی ہے تو وہ فدیہ ادا کرے، اگرروزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدّت کی بنا پر انہیلر استعمال کیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو بعد میں قضا کرے، ورنہ فدیہ ادا کرے۔ انہیلر میں اگرچہ گیس ہوتی ہے اور ہوا حلق میں جاتی بھی رہتی ہے اور خارج بھی ہوتی ہے، آکسیجن پر تو زندگی کا مدار ہے، لیکن انہیلر میں آکسیجن کے ساتھ ایک کیمیکل بھی ہوتا ہے، جو حلق کے راستے معدے تک پہنچ سکتا ہے، کیونکہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
(10) انتہائی درجے کے ذیابیطس کے مریض یا ایسے تمام اَمراض میں مبتلا مریض جن کو خوفِ خدا رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو، ورنہ مرض بے قابو ہو جائے گا یا کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسے تمام لوگ شرعی معذور ہیں، اُنہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کریں، ایسے لوگ ”دائمی مریض‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر فدیہ ادا کر دیا ہے اور بعد میں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اُس بیماری سے صحت عطا کر دی، تو قضا بھی کرے، فدیہ میں دیے ہوئے مال کا ثواب اُسے مل جائے گا۔
(11) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا مقرر کیا ہے، ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”سو جو شخص خوش دلی کے ساتھ فدیے کی مُقررہ مقدار سے زیادہ ادا کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے‘‘ (البقرہ: 184)۔
(12) اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں مسافر یا عارضی مریض کو عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے، لیکن یہ بھی فرمایا: ”اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘ (البقرہ: 184)، حدیث پاک میں ہے: ”حضرت حمزہؓ بن عمر واسلمی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میں سفر میں روزہ رکھتا ہوں اور وہ کثرت سے روزہ رکھنے والے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ”تمہیں اختیار ہے چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو چھوڑ دو‘‘ (بخاری:1943)۔ مسافر یا عارضی مریض فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے عہدہ برآ نہیں ہوں گے، بلکہ اُنہیں رمضان المبارک کے بعد صحت یاب ہونے پر عذر کی بنا پر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنا ہو گی۔
(13) روزہ رکھنے کی صورت میں حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کی اپنی یا بچے کی صحت کے بگڑنے کا ظنِّ غالب ہو تو وہ رمضان کا روزہ چھوڑ سکتی ہے، لیکن اِس کی تلافی فدیے سے نہیں ہو گی بلکہ بعد میں قضا روزے رکھنا ہوں گے۔ اِسی طرح ایامِ مخصوص کے دوران عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، ایام ختم ہونے پر غُسلِ واجب کرکے پاک ہو جائے اور روزے رکھے، جتنے دنوں کے روزے چھوٹ گئے ہیں، اُن کی تلافی فدیے سے نہیں ہو گی بلکہ بعد میں اتنے دنوں کے قضا روزے رکھنا ہوں گے۔
(14) گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا اس کے ذمے باقی ہے تو اگلا رمضان آنے سے پہلے اس کی قضا رکھے، تمام فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی قضا علی الفور واجب نہیں ہے، لیکن بلا عذر اتنی تاخیر کرنا گناہ ہے کہ اگلا ماہِ رمضان شروع ہو جائے۔ ”رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس پر گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا باقی ہے، اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہیں ہوں گے اور جس نے نفلی روزے رکھے، جبکہ اس پر رمضان کے روزوں کی قضاباقی تھی، اس کے نفلی روزے قبول نہیں ہوں گے حتیٰ کہ وہ قضا روزے رکھ لے‘‘ (مسند احمد: 8621)۔
(15) جواں عمر حضرات روزے کے دوران بیوی کے ساتھ بوس وکنار سے اجتناب کریں، اگرچہ یہ جائز ہے، لیکن شَہوت کے غلبے کے پیش نظر روزے کے فاسد ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اس لیے احتیاط کرنا بہتر ہے۔
(16) رمضان المبارک کے قضا روزوں کا کسی وقفے کے بغیر لگاتار رکھنا ضروری نہیں ہے، بیچ میں وقفہ بھی کر سکتے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ گرمی کے روزوں کی قضا گرمی کے دنوں میں رکھی جائے، نہ یہ ضروری ہے کہ سردیوں میں قضا شدہ روزوں کی قضا سردی کے موسم میں رکھی جائے، اس میں شریعت نے وسعت اور آسانی رکھی ہے، سال کے دوران اپنی سہولت کے مطابق قضا روزے رکھ سکتے ہیں۔
(17) جس نے بشری کوتاہی کی بنا پر روزہ نہ رکھا یا رکھنے کے بعد عذر کی بنا پر توڑ دیا، اس پر صرف قضا لازم ہے، البتہ جس نے روزہ رکھ کر کسی عذر کے بغیر جان بوجھ کر توڑ دیا تو اس پر کفارہ لازم ہے، یہ ساٹھ روزے مسلسل اور ایک قضا کا روزہ رکھنا ہے۔
(18) غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، چغلی کھانا، کسی پر بہتان لگانا، کسی کی عیب جوئی کرنا، لوگوں کو ایذا پہنچانا، بیہودہ یا جنسی تَلذّذ کی باتیں کرنا عام حالات میں بھی منع ہیں اور روزے کی حالت میں ان کی ممانعت وحُرمت اور زیادہ ہو جاتی ہے، اِن باتوں سے فقہی اعتبارسے توروزہ فاسد ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا، لیکن روزہ مکروہ ہو جاتاہے اور روزہ دار روزے کے کامل اجر سے محروم ہو جاتا ہے۔
(19) گزشتہ چند سالوں سے ماہِ رمضان میں شدید گرمی ہوتی ہے جسے ”Heat Stroke‘‘ یا ”Heat Wave‘‘ کا نام دیا گیا ہے، بہت زیادہ پسینہ نکلنے کی وجہ سے انسانی جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہو جاتی ہے، جسے طبی زبان میں Dehideration کہتے ہیں۔ ہماری رائے میں ایسے حالات میں جب کسی شخص کے لیے بیماری کے خطرناک بن جانے یا روزے دار کی جان تلف ہونے کا ظَنِّ غالب ہو جائے تو روزہ توڑنے یا چھوڑنے کی شرعی رخصت پر عمل واجب سمجھا جائے، کیونکہ اس کی تائید میں احادیثِ مبارَکہ، آئمۂ مجتہدین اور فقہائے امت کے اقوال موجود ہیں، ایسی صورت میں روزہ توڑنے پر صرف قضا لازم ہو گی، کفارہ لازم نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(۱) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے تمہارے لیے جو رخصت دی ہے، اُس رخصت پر عمل کرنا تم پر واجب ہے‘‘ (مسلم: 1115 )، (۲) ”جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رخصت کو قبول نہیں کیا، اُس کو میدانِ عرفات کے پہاڑوں کے برابر گناہ ہو گا‘‘ (مسند احمد: 5392)، (۳) ”بے شک اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی معصیت کو ناپسند فرماتا ہے، اسی طرح اپنی دی ہوئی رخصت پر عمل کرنے کوپسند فرماتا ہے‘‘ (مسند احمد: 5866)۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ”اگرروزہ رکھنے کی صورت میں ہلاکت کا اندیشہ ہو تو روزہ توڑنا واجب ہے‘‘ (ردالمحتار، جلد: 6، ص: 356)۔ علامہ علاء الدین ابوبکر کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ”امام ابوحنیفہ سے روایت ہے: اور (عذر کی بنا پر) روزہ توڑنے کی مُطلق اباحت بلکہ وجوب اُس صورت میں ہے کہ روزے دار کی ہلاکت کا اندیشہ ہو، کیونکہ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، اللہ کے حق کو قائم رکھنے کے لیے نہیں جو کہ واجب ہے، اس حالت میں روزے کا وجوب باقی نہیں رہتا اور یہ حرام ہے، تو ایسی صورت میں روزہ توڑنا مباح بلکہ واجب ہو گا‘‘ (بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 142)۔
بشکریہ دنیا نیوز