ملک میں 11 مئی 2013 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں بلوچستان حکومت تشکیل پائی اورڈاکٹر عبدالمالک بلوچ 9 جون 2013کووزیر اعلی بنے.رواں ماہ دسمبر میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی مری معاہدے کے مطابق ڈهائی برس کی مدت مکمل ہوئی اور وزارت اعلی کے منصب سے رخصتی کا مرحلہ آن پہنچا. اعلی تعلیم یافتہ اور مڈل کلاس سے تعلق رکهنے والے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک مکران ڈویژن ،تربت سے منتخب ہوئے تهے. مسلم لیگ ن، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت کے سربراہ سے مسائل میں گهرے صوبے کے عوام کو بہت سی توقعات تهیں مگر ان کے دور میں بهی بہت سی توقعات پوری نہ ہوسکیں.ماضی میں صوبے میں مخلوط حکومت کے وجود کو برقرار رکهنا ہی کامیابی سمجها جاتا تها،وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت کے سبب، 65 ارکان کے ایوان میں محض 11نشستیں حاصل کرنے والی جماعت نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک کو اس حوالے سے بہتر صورتحال ملی تهی مگر ان کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے.ملک میں سب سے پہلے بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینا صوبائی حکومت کا کارنامہ ہے جبکہ امن وامان کی صورتحال میں بهی واضح بہتری آئی ہے جس کا سب ہی اعتراف کرتے ہیں.امن وامان بہتر ہونے کا کریڈٹ صوبائی حکومت کے ساته ساته قانون نافذ کرنے ولے اداروں اور مقتدر حلقوں کو جاتا ہے.ڈاکٹر مالک بلوچ کی جانب سے رواں برس نواب بگٹی کے پوتے ،جلاوطن رہنمابراہم داغ بگٹی اور دیگر ناراض بلوچ رہنماوں سے ملاقات اوررابطے کئے گئےجس کے سبب ناراض بلوچ قوم پرست رہنماوں کے موقف میں مثبت تبدیلی دیکهنے میں آئی.البتہ وزارت اعلی کا منصب سنبهالنے کے ابتدائی دو برس میں اس حوالے سے تساہل دکهائی دیا.ڈاکٹر مالک کی حکومت ،نواب اسلم رئیسانی کی حکومت سے بہتر رہی مگر مسائل کی گرداب میں گہرے بلوچستان کو بہت کچه کئے جانے کا انتظار ہی رہا اور عوام کی پسماندگی کم ہونے کی بجائے مزید بڑه گئی.
غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے مطابق بلوچستان حکومت چاروں صوبوں میں صرف سنده حکومت سے بہتر رہی جبکہ تعلیم کے بجٹ میں بلوچستان حکومت نے 42 فیصد اضافہ کا دعوی کیالیکن پلڈاٹ کے مطابق حکومت بلوچستان نےدرحقیقت دیگر صوبوں کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے میں سب سے کم اقدامات کئے.اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور انسداد بدعنوانی کے شعبوں میں بہتر جبکہ دیگر شعبوں میں ناقص کارکردگی کے سبب ڈاکٹر مالک کی حکومت مقررہ 24 پوائنٹ میں سے صرف پانچ پوائنٹ حاصل کرسکی. بچوں کی اسکولوں میں بہت کم داخلے کی شرح اور پهر ان میں سے بهی بہت سے بچوں کا پرائمری کی سطح پر اسکول چهوڑ جانا بهی تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کو طشت ازبام کرتا ہے.ڈاکٹر مالک یونیسیف اور محکمہ تعلیم کے حکام کے اجلاس میں خود برملا اعتراف کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں 900 گهوسٹ اسکول موجود ہیں. صحت اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات کا حصول صوبے کے عوام کے لئے اب بهی محض خواب ہے.گوادر بندرگاہ کو فنگشنل کرنے ،سیندهک تانبے اور سونے کے منصوبے سے بلوچستان کو مناسب حصہ نہ دلانے اور ریکوڈک سمیت صوبے میں موجود اربوں ڈالر کی معدنیات کو نکالنے کے لئے صوبائی حکومت کچه نہ کرسکی اور نہ ہی وسائل میں اضافہ کے لئے کوئی حکمت عملی بناسکی( تاکہ وسائل کی کمی کا رونا نہ رونا پڑے).اسی لئے آج بهی صوبے کے عوام کی اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے.بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کے تحت رواں برس جنوری میں صوبائی حکومت کی اسلام آباد کے مہنگے ہوٹل میں منعقدہ دو روزہ کانفرنس بهی کروڑوں روپے کے ضیاع کا سبب بنی ،اس کانفرنس میں ارکان بلوچستان اسمبلی اور صوبائی ملازمین کی فوج ہی شریک ہوئی جن میں سے کئی بیوی بچوں کے ساته آئے وفاقی دارالحکومت کے مہنگے ہوٹل میں سرکاری خرچ پر قیام پزیر ہوئے.
ڈاکٹر مالک کی سربراہی میں بلوچستان اسمبلی کی کارکردگی بهی ملاحظہ کرلیجئے،دوسرے پارلیمانی سال کے دوران 16 بلز جبکہ13 سرکاری اور 15 غیر سرکاری قراردادیں منظور کی گئیں،54 سوالات کے جواب دیئے گئےاور 13تحاریک التوا میں سے 8 پر بحث کی گئی.
بلوچستان کی اہم قبائلی شخصیت ،زہری قبیلے کے سربراہ چیف آف جهالاوان نواب ثنا اللہ زہری ،ڈاکٹر مالک کی جگہ بلوچستان کے 21ویں وزیر اعلی کا منصب سنبهالنے والے ہیں.ممتاز قبائلی و سیاسی رہنما سردار دودا خان زہری مرحوم کے صاحبزادے نواب ثنا اللہ 1988 میں پہلی مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے .مسلم لیگ ن بلوچستان کے صوبائی سربراہ مجموعی طور پر6مرتبہ خضدار سے رکن بلوچستان اسمبلی اور ایک بار سینیٹر رہ چکے ہیں.وہ مختلف ادوار میں ایس اینڈ جی اے ڈی ، جیل خانہ جات اور دیگر محکموں کے وزیر رہ چکے ہیں جبکہ موجودہ حکومت میں انہیں سینئیر صوبائی وزیر اور وزیر اعظم کا خصوصی مشیر بهی مقرر کیا گیا.بلوچ عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے نواب ثنا اللہ کے کاندهوں پر اہم ذمہ داری عائد ہوگئی ہے، اور انہیں یاد رکهنا ہوگا کہ بلوچستان میں وزیر اعلی کا منصب پهولوں کی سیج نہیں.بعض حلقوں کی جانب سے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ نواب ثنا اللہ کا وزیر اعلی کے لئے انتخاب مناسب اقدام نہیں اور ان کی حکومت کہیں نواب اسلم رئیسانی کی سابق حکومت سے بهی بدتر ثابت نہ ہو.اس لئے نواب زہری کو ماضی کی روش تبدیل کرتے ہوئےحکومت اپنے دور حکومت میں اچهی مثالیں قائم کرنا ہوں گی اوراپنی قبائلی اور سیاسی حیثیت کو ناراض بلوچ قیادت سے مزاکرات کے علاوہ صوبے کے اہم مسلے لاپتہ بلوچ نوجوانوں کی بازیابی اور مسخ شدہ لاشوں کے مسلے کے حل اور اس حوالے سے بلوچوں کے زخموں پر مرہم رکهنے کے لئے استعمال کرنا ہوگا.من وامان کی بہتری اور دیگر مثبت پالیسیوج کا تسلسل برقرار رکهنے کے علاوہ صوبے کے مقتدر حلقوں سے اچهی ورکنگ ریلیشن شپ بنانی ہوگی.