بعض دفعہ ایسی ویڈیوز واٹس ایپ گروپس میں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ایک لمحے کے لیے آپ کا دل رک سا جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک مختصر دورانیے کی ویڈیو دیکھنے کو ملی جس کے بارے میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ ظاہر پیر کے رہائشی جام زبیر کی ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جام زبیر ایک کسان ہے جو اپنے بچوں کے ساتھ منڈی میں ٹماٹر بیچنے گیا تھا۔ ریڑھی پر ٹماٹر کے شاپر بھرے رکھے تھے لیکن منڈی میں سارا دن گزارنے کے باوجود وہ ٹماٹر نہیں بیچ سکا تھا۔ پانچ کلو کا ٹماٹروں سے بھرا ایک شاپر وہ بیس روپے بیچنا چاہ رہا تھا لیکن نہ بکا۔ پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ وہ واپس گھر جاتے ہوئے نہر کے کنارے رکا۔ اس کا چھوٹا چھ سات سال کا بیٹا ایک سائیڈ پر بیٹھا ہے اور دو چھوٹے بچے ریڑھی کے آگے ہیں۔ باپ فرسٹریشن میں سارے شاپر اس چھوٹی نہر میں پھینک رہا ہے اور ساتھ منہ ہی منہ میں کچھ بول بھی رہا ہے۔
مجھے اس باپ کے دکھ سے زیادہ اس بچے کا کرب بھرا چہرہ ہانٹ کررہا ہے کہ صبح سویرے ماں باپ نے اٹھ کر کھیت سے وہ ٹماٹر چنے ہوں گے۔ انہیں صاف ستھرے شاپرز میں تول کر ڈالا ہوگا اور پھر منڈی کی طرف جاتے وقت اس چھوٹے سے بیٹے نے ضد کی ہوگی کہ اسے بھی باپ کے ساتھ شہر جانا ہے۔ باپ نے بیٹے کی ضد دیکھ کر اسے بھی ساتھ بٹھا لیا ہوگا۔ ہوسکتا ہے سوچا ہو کہ ٹماٹر بک گئے تو وہ بچے کو بھی کچھ خرید دے گا‘ جو ممکن ہے اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیت سے ٹماٹر اکٹھے کرتا رہا ہو۔ ممکن ہے بیوی نے بھی کوئی فرمائش کی ہوکہ اگر ٹماٹروں کا اچھا ریٹ مل جائے تو کچھ اس کے لیے بھی لیتے آنا۔ شاید جلیبیاں۔
وہ منڈی میں صبح سے دوپہر تک ٹماٹر بیچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کوئی گاہک نہ ملا۔ ٹماٹروں کا ریٹ گر چکا تھا اور اب ٹکے ٹوکری بھی کوئی خریدنے کو تیار نہ تھا۔ اب ایک کسان کو ذہن میں لائیں جس نے یہ سوچ کر ٹماٹر کاشت کیا تھاکہ چند ماہ پہلے ٹماٹروں کی قلت ہونے سے اس کی قیمت تین سو روپے کلو سے بھی اوپر چلی گئی تھی‘ چنانچہ اب اسے اچھا ریٹ ملے گا۔ کسان اکثر یہی کرتے ہیں۔ جب ایک سال فصل کم ہوتی ہے اور ریٹ اوپر چلا جاتا ہے تو کیش کراپ کے چکر میں سب کسان وہی فصل کاشت کرنے لگ جاتے ہیں۔ اچانک فصل اترتی ہے تو پتہ چلتا ہے سب نے وہی کاشت کی ہے اور فصل بمپر ہوئی ہے‘ یوں سپلائی بڑھ جانے سے قیمت گر جاتی ہے۔ یہی دیکھ لیں جو ٹماٹر تین سو روپے فی کلو تک پہنچ گیا تھا وہ اب بیس روپے بھی کوئی نہیں خرید رہا تھا۔ اب اس فصل کی تیاری میں کسان اور اس کی بیوی نے جو محنت کی ہے، اس کو کھاد اور پانی دیا ہے، اس فصل کے ساتھ امیدیں باندھ لی ہیں کہ پیداوار سے کچھ پیسے ملیں گے‘ لیکن فصل پکنے کے بعد وہی کسان اپنے بچوں کے سامنے پیداوار نہر میں بہا رہا تھا۔
اس بچے کی بے بسی آنکھوں میں بس سی گئی ہے کہ وہ کچھ حیران ہے کہ باپ کیا کررہا ہے۔ وہ چھوٹی عمر میں یہ سب کچھ نہیں سمجھ پا رہا۔ وہ خوشی سے باپ کے ساتھ مارکیٹ گیا تھا‘ لیکن وہ خوشی ایک غم اور اداسی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ مجھے بتائیں یہ کسان کیا کرے گا؟ اس کا ایمان اب زراعت اور فصل سے اٹھ چکا ہے۔ وہ یا تو مزدوری کرنے شہر جائے گا تاکہ بچوں کو زندہ رکھ سکے یا اگر موقع ملا تو وہ زمین کسی ہائوسنگ سوسائٹی کو بیچ دے گا۔ اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ آموں کے باغات ملتان میں کیوں کاٹ دیے گئے یا ان علاقوں میں زرعی زمینیں ہائوسنگ سوسائٹیز کو کیوں بیچ دی گئیں۔
اب کسان کیوں زمین کے ساتھ چھ ماہ جنگ لڑے، مہنگی کھاد، تیل خریدے، ہل جوتے اور پھر ایک طویل انتظار بعد فصل پک جائے تو بیچ نہ سکے اور نہر میں بہا دے؟ وہ کیوں نہ اس زمین کو ہی بیچ دے جس پر کوئی سرمایہ دار ہائوسنگ سوسائٹی کھڑی کرکے انہی شہریوں کو لاکھوں روپوں کی فی کنال بیچ دے‘ جو کسان سے بیس روپے کے ٹماٹر خریدنے کو تیار نہیں۔
پاکستانی کسانوں کو نقصان اس لیے اٹھانا پڑتا ہے کہ یہاں ان کی پروڈکٹس کو محفوظ رکھنے کا کوئی نظام نہیں بنایا گیا۔ کولڈ سٹوریجز پر کام نہیں کیا گیا۔ مجھے یاد ہے بیس سال پہلے جنرل مشرف دور میں چین نے پاکستان کو ماڈل فارمز اور کولڈ سٹوریجز بنانے کی پیشکش کی تھی تاکہ کسانوں کی ایسی پروڈکٹس جیسے پھل فروٹ، سبزیاں جو موسم کی وجہ سے جلد خراب ہوجاتی ہیں اور کسان کا نقصان ہوتا ہے‘ کو بچایا جا سکے۔ کچھ دن اس سکیم کا چرچا رہا اور اب بیس برس بعد مجھے بھی اس وقت یاد آیا جب میں نے یہ ویڈیو دیکھی۔ اگر اس کسان کے پاس بھی سٹوریج کی سہولت ہوتی تو وہ ٹماٹر ایسے اداسی اور بے بسی کے ساتھ نہر میں نہ بہا دیتا اور اس کا بیٹا معصوم آنکھوں سے باپ کی دولت لٹتے نہ دیکھتا۔
یہ کام حکومتوں کے کرنے کے تھے کہ وہ زرعی علاقوں میں کسانوں کیلئے جدید پیمانے پر کولڈ سٹوریجز کی سہولتوں پر کام کرتی۔ ان چھوٹے کسانوں کو مالی طور پر تباہ ہونے سے بچاتی تاکہ وہ یہ کیش کراپس اگر ایک دن نہ بیچ سکیں تو فرسٹریشن میں اسے نہر میں پھینکنے کے بجائے سٹور کر سکیں۔ یا ان ٹماٹروں کا کیچ اپ بنا کر بیچنے میں کسانوں کو مدد دیتی۔ یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی فصل خود خرید لے تاکہ چھوٹا کسان بالکل کرش نہ ہو جائے اور وہ سڑک پر نہ آجائے یا شہر میں مزدوری ڈھونڈنے نہ نکل جائے یا کل کلاں اپنی زمین کسی ہائوسنگ پروجیکٹ کو نہ بیچ دے۔ حکومتیں جب مہنگے ٹماٹر اور پیاز بھارت سے منگواتی ہیں تو اس پر بھی وافر تعداد میں ڈالرز خرچ کرتی ہیں۔ وہی پیسہ ان کسانوں پر لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس اب تک سپلائی اور ڈیمانڈ میں کوئی توازن پیدا نہیں کرسکے۔ بیچارے ان پڑھ کسان کو کوئی گائیڈ کرنے کو تیار نہیں کہ اسے کونسی فصل کتنی کاشت کرنی چاہئے تاکہ اتنی زیادہ پیدا نہ ہو کہ قیمت ہی کریش کر جائے ۔
لیکن اس سے بڑا دکھ مجھے اس وقت ہوا جب وہ ویڈیو میں نے اپنے فیس بک اکائونٹس اور ٹویٹر پر شیئر کی تو لوگوں نے الٹا اس غریب کسان پر تبرا پڑھنا شروع کر دیا کہ اس نے کیوں ٹماٹر نہر میں پھینک دیے۔ اس نے مفت وہ ٹماٹر کیوں نہ بانٹ دیے، گلی گلی جا کر فروخت کیوں نہیں کیے۔ زرق کی بے حرمتی کیوں کی؟یہ کمنٹس کرنے والے بے حس لوگوں نے نہ کسان کی سی زندگی گزاری ہے اور نہ وہ اس تکلیف سے گزرے ہیں جس نے اس بے چارے کو مجبور کر دیا کہ وہ فرسٹریشن میں سب کچھ پانی میں بہا دے۔ کس کا دل چاہے گا کہ جس فصل کو اس نے بچوں کی طرح پالا پوسا وہ اسے اپنے بچوں کے سامنے ہی نہر میں بہا دے؟ کیا مفت لینے والوں کو علم نہیں کہ اس نے جو اس فصل پر خرچ کیا وہ کہاں سے کمائے اور اپنے بچوں اور خاندان کو کھلائے اور اگلی فصل کے لیے بیج‘ تیل کا بندوبست کرے۔ وہ کس در پر جائے اور دہائی دے کہ اس کی ساری جمع پونچی لٹ گئی ہے۔ چند ہمدردی کے الفاظ چھوڑیں الٹا ہم شہری بابو اس پر تنقید کررہے ہیں۔ جب ٹماٹر کی قیمت بڑھی تو یہی شہری بابو سنبھالے نہیں جارہے تھے کہ ٹماٹر بھی مہنگا ہوگیا۔ اب ٹماٹر سستا ہوگیا ہے تو خریدنے کے بجائے فرماتے ہیں کہ اگر اسے خریدار نہیں مل رہا تو لوگوں میں ٹماٹر مفت کیوں نہیں بانٹ دیے؟
حیرانی سے زیادہ ایسے انسانوں پر افسوس ہے جو اس کسان اور اس کے بچوں کا دکھ نہ سمجھ سکیں‘ ان کی بے بسی کو نہ دیکھ سکیں۔ مجھے نہیں پتہ اس کسان نے گھر جا کر بیوی کو کیا بتایا ہوگا کہ ریڑھی اگر ٹماٹروں سے خالی تھی تو مطلب سب بک گئے تھے تو پیسے کدھر گئے؟ اور اگر صدمے اور فرسٹریشن کے شکار جام زبیر کی زبان لڑکھڑا گئی ہوگی تو ان چھوٹے بچوں نے‘ جن کے سامنے وہ ٹماٹروں والے شاپرز نہر میں پھینک دیے گئے تھے، اپنی توتلی زبان میں ماں کو خوف زدہ اور دکھی آواز میں وہ سارا کرب کیسے بیان کیا ہوگاکہ ٹماٹروں سے بھری ریڑھی کے ساتھ بابا نے کیا حشر کیا تھا۔
بشکریہ دنیا