سینئر صحافی اور پروڈیوسر اسد علی طور کو اب سے تھوڑی دیر قبل تین افراد نے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا .
اسد طور پر حملہ کرنے والے افراد کی ویڈیو
اسد علی طور پر حملہ کرنے والوں کے چہرے اور پاکستان میں مغرب سے زیادہ آزاد میڈیا کا اصل چہرہ pic.twitter.com/3iNTadQGSY
— Sabookh Syed | سبوخ سید (@SaboohSyed) May 25, 2021
نامعلوم حملہ آور تین تھے۔ ان کے ہاتھ ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کے ساتھ تشد د کیا گیا ۔ پستول کے بٹ سے مارا گیا ہے۔ انہیں شدید زخمی حالت میں پمز لایا گیا ۔ ان کے جسم پر شدید چوٹیں ہیں اور خون بہہ رہا ہے ۔
اسد طور کا حملے کے بعد پہلا بیان
حملے کے بعد اسد علی طور کا پہلا بیان #AsadToor@AsadAToor pic.twitter.com/rEAJQmUuSo
— Sabookh Syed | سبوخ سید (@SaboohSyed) May 25, 2021
ان کے دوست ناصر طفیل کے مطابق اب سے تھوڑی دیر پہلے نامعلوم افرادنے گھر میں گھس کر حملہ کیا،جس سے وہ شدید زخمی ہوئے، پہلے انھیں ٹیلی فون کال کر کے دھمکی دی گئی اس کے بعد ان پر حملہ ہوا۔ اسد طور کو پمز پہنچایا جا رہا ہے۔ نامعلوم حملہ آور تین تھے۔ پستول کے بٹ سے مارا گیا ہے۔
اسد طور پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ مریم نواز، بلاول بھٹو، بختاور بھٹو، پلوشہ خان ، عمار علی جان، نفیسہ شاہ، سمیت سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور وکلاء نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ۔
صحافیوں حامد میر، سلیم صافی، نصرت جاوید، ابصار عالم ، عنبر شمسی، عاصمہ شیرازی، منیزے جہانگیر، مبشر زیدی، عمر چیمہ ، احمد ولید، مطیع اللہ جان، عادل شاہ زیب ، اعزاز سید، سبوخ سید، وسیم عباسی، شکور خان، احمد نورانی ، وحید مراد، ناصر طفیل، گل بخاری سمیت دیگر صحافیوں نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مطیع اللہ جان کو اغوا کرنے والے اور ابصار عالم پر حملہ کرنے والوں کا تاحال کوئی علم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے پاکستان میں صحافی خوفزدہ حالت میں کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ وجاہت مسعود،
بلال غوری، عمار مسعود اور ریما عمر نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی۔
اسد علی طور اسلام آباد میں صحافت کرتے ہیں ۔ اس سے قبل ان پر لال مسجد سے منسلک شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام نے ایک کیس بھی کروایا تھا، جس کو انہیں بعد ازاں عدالت نے بری کر دیا ۔اسد علی اپنے بے باک تجزیوں اور تبصروں کی وجہ سے معروف ہیں۔
اسد علی طور نے ڈان ، اے آر وائی ، سماء نیوز اور آج ٹی وی میں بطور پروڈیوسر کام کرتے رہے ۔ آج کل وہ آج ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں۔
اسد علی طور آئی بی سی اردو کے لیے بلاگ بھی لکھتے ہیں۔
دوسری جانب پولیس نے اسد طور کا بیان لیکر تحقیقات شروع کر دی ہیں.