لفظِ احسان کا مادّہ حسن ہے، ہر خوبصورت اور مرغوب چیز کو حَسَن کہتے ہیں۔ علامہ اصفہانی نے مُستَحسنات کی کئی قسمیں بیان کی ہیں: ان کا تعلق عقل، نفسانی خواہشات، حواسِ ظاہری و باطنی سے ہے، جیسے علمی نکات اور لطائف، خوبصورت انسان، خوبصورت مناظر، خوش ذائقہ چیزیں اور دل آویز خوشبوئیں۔ ”اَلْحَسَنَۃُ‘‘ کا معنی ہے: ”ہر وہ نعمت جس کا اثر انسان اپنے نفس، بدن اور احوال میں محسوس کر سکے، اس کی ضد ”اَلسَّیِّئَۃُ‘‘ ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ”اور اگر ان کو (مہمات میں کامیابی یا فصلوں کی زرخیزی کی صورت میں) کوئی خوشحالی پہنچے تو کہتے ہیں: یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر ان کو (مصائب، قحط، مہمّات میں ناکامی کی صورت میں) کوئی بدحالی پہنچے تو اس کو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی نحوست قرار دیتے ہیں‘‘ (الاعراف: 131)۔
احادیث مبارکہ میں ہے: (1) ”ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب تمہاری نیکی تمہیں اچھی لگے اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو (جان لو کہ) تم مومن ہو۔ انہوں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! گناہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹکے (یعنی اس پر اطمینان نہ ہو) تو اُسے چھوڑ دو‘‘ (مسند احمد: 22166)۔ (2) ”رسول اللہﷺ نے فرمایا: (سوچے سمجھے بغیر دوسروں کے پیروکار) نہ بنو کہ یہ کہو: اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ (اس کے برعکس) اپنے آپ کو اس روِش پر مستقیم رکھوکہ اگر لوگ اچھا کریں تو تم بھی اچھا کرو اور اگر وہ برا کریں تو تم زیادتی نہ کرو‘‘ (ترمذی: 2007)، (3) ”حضرت نواس بن سمعان انصاریؓ نے رسول اللہﷺ سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا: آپﷺ نے فرمایا: نیکی اچھے اخلاق کا نام ہے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتا چل جائے‘‘ (صحیح مسلم: 2553)۔ الغرض حَسَن وہ شے ہے جوعقل کے اعتبار سے پسندیدہ و مرغوب ہو اور اس کی عمدگی عقل کے معیار پر پوری اُترتی ہو یا قلبی رغبت اور چاہت کے اعتبار سے دل کو بھلی لگتی ہو یا حسیّ طور پر یعنی دیکھنے سننے اور پرکھنے کے اعتبار سے پُرکشش ہو۔
حسن کا اطلاق عام لوگوں کے نزدیک اکثر ان چیزوں پر ہوتا ہے جن کا ادراک آنکھوں سے ہوتا ہے اور قرآنِ مجید میں حَسَنکا اطلاق اکثر ان چیزوں پر ہوا ہے جن کا ادراک بصیرت (عقل) سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جو لوگ غور سے اللہ کا کلام سنتے ہیں پھر اس پر عمدہ طریقے سے عمل کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے‘‘ (الزمر: 18)، یعنی وہ اس طریقے سے اس حکم پر عمل کرتے ہیں کہ اس میں نَقص کا شائبہ بھی نہیں رہتا۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے یہ حدیث یاد رکھی ہے: ”جس چیز میں شک ہو اس کو ترک کر کے اس چیز کو اختیار کر لو جس میں شک نہ ہو، بیشک صدق میں طمانیت ہے اور کذب میں شک ہے‘‘ (سنن ترمذی: 2518)۔
اِسی لفظِ حَسَن سے احسان ماخوذ ہے، یہ لغوی اعتبار سے ”اَلْاِسَائَ ۃ ‘‘ (برائی) کی ضد ہے۔ امام اصفہانی نے لکھا: ”احسان کا اطلاق دو معنوں پر کیا جاتا ہے: ”کسی شخص پر انعام کرنا، کہا جاتا ہے: فلاں شخص پر انعام کیا یعنی کسی شخص کو کوئی نعمت دی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہے‘‘ (الرحمن: 60)، یعنی نعمت کا بدلہ نعمت سے دینا چاہیے۔ احسان کا دوسرا معنی ہے: ”نیک کام کرنا‘‘، قرآن مجید میں ہے: ”اگر تم نے کوئی نیک کام کیا ہے تو اپنے فائدے کے لیے کیا ہے‘‘ (بنی اسرائیل: 7)۔ امام رازی لکھتے ہیں: ”احسان قرآنِ کریم کے اُن کلمات میں سے ہے جن کے معنی مفسرین نے سو تک بیان کیے ہیں، احسان کے ایک معنی ہیں: حسین صورت و سیرت میں تخلیق کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اُس نے تمہاری صورت بنائی اور بہت حسین صورت بنائی‘‘ (مومن: 64) اور فرمایا: ”(اللہ) وہ ہے جس نے ہر چیز کو حسین بنایا‘‘ (السجدہ: 7)۔ اردو میں لفظِ احسان جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اُن معنوں میں عربی میں لفظِ ”مَنّ‘‘ اور ”اِمْتِنَان‘‘ آتا ہے۔ ان کے معنی ہیں: بھلائی کرنا، احسان جتلانا۔ پس احسان کے معنی ہیں: ”قلب یا اعضاء کے کسی فعل کو مرتبۂ کمال پر ادا کرنا، جس میں کوئی جھول، کوئی نَقص اور کوئی خامی باقی نہ رہے، اسے انگریزی میں Perfection سے تعبیر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب قلب یا اعضاء کا کوئی فعل یا احساس اس درجے میں ہو گا تو اُس میں ہر جہت سے حُسن ہی حُسن ہو گا، جمال ہی جمال ہو گا، وہ نظروں میں بھی جچے گا، دل کو بھی لُبھائے گا اور جس کے لیے انجام دیا جا رہا ہے، اُسے بھی بھلا معلوم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اورکوئی‘ مرد و عورت‘ جو ایمان پر قائم رہتے ہوئے نیک کام کرے گا‘ تو وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘ (النسآء: 124)۔
ایک طویل حدیث میں ہے: ”جبریل امین رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور یکے بعد دیگرے اسلام، ایمان اور احسان کی بابت سوالات کیے۔ احسان کی بابت سوال کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت (اس انہماک اور حضوریٔ قلب کے ساتھ) کرو کہ گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، پس اگر تم (اپنی کوتاہ نظری کے باعث) اُسے دیکھ نہیں پاتے تو (یہ یقین رکھو) وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ (صحیح مسلم: 8)۔ احسان کا ایک درجہ اخلاص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور انہیں فقط اس بات کا حکم دیا گیا کہ وہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے یکسو ہوکر اس کی عبادت کریں‘‘ (اَلْبَیِّنَہ:5 )۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”(اے رسولِ مکرّم!) کہہ دیجیے: بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا‘ (سب) اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں‘‘ (الانعام: 162)، یعنی آپﷺ عالَمِ ارواح میں اول ہیں اور بعثت میں آخر ہیں۔ (2) ”اور جس نے احسان شعار ہوتے ہوئے اپنا رُخِ (بندگی) اللہ کے حضور جھکا دیا تو اُس نے مضبوط حلقے کو تھام لیا اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے‘‘ (لقمان: 22)۔
اگرچہ عام طور پر احسان کا معنی نیکی سے کیا جاتا ہے، جیسے: ”اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک برتائو کرو‘‘ (بنی اسرائیل: 23)۔ لیکن پوری معنویت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس سے بلند ترین درجے کی نیکی اور حُسنِ سلوک مراد ہے۔ اس کا ثبوت اس طویل حدیث سے ملتا ہے: ”تین آدمیوں نے ایک غار میں پناہ لی اور شدید بارش کے سبب ایک چٹان نے سرک کر غار کو بند کر دیا، انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: اب اس مشکل سے نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے کسی بہترین عمل کا وسیلہ پیش کر کے ردِّ بلا کی دعا کرے؛ پس اُن میں سے ایک نے کہا: ”میں (دن بھر) مویشی چَرایا کرتا تھا، پھر (سرِشام) واپس آتا اور دودھ دوہ کر اپنے ماں باپ کے پاس لے آتا تاکہ وہ پیئیں، پھر (اُن کے بعد) میں اپنے بیوی بچوں اور گھر والوں کو پلاتا، ایک دن مجھے واپسی میں تاخیر ہو گئی، پس جب میں (دودھ لے کر) آیا تو والدین سو چکے تھے، سو میں نے انہیں جگانا پسند نہ کیا ، بچے (خوراک کی طلب میں) میرے قدموں میں بِلک رہے تھے، (مگر) میں اسی حالت میں شب بھر کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی (اور میں نے اپنے ماں باپ کو دودھ پلایا، اس نے گڑگڑا کر دعا کی:) اے اللہ! یقینا تُو جانتا ہے کہ میں نے (یہ مشقت صرف) تیری رضا کے لیے کی تھی، تو اس غار کو ہمارے لیے کھول دے تا کہ ہم آسمان کو دیکھ پائیں، سو غار کھول دیا گیا‘‘ (صحیح بخاری: 2215)۔ اسی طرح باقی دو ساتھیوں نے بھی اپنی اپنی اعلیٰ درجے کی نیکیوں کا وسیلہ پیش کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے غار کے دہانے سے بھاری پتھر کو ہٹا دیا اور انہیں مصیبت سے نجات ملی۔
اس کیفیتِ احسان کو خشوع، خضوع اور خَشیتِ الٰہی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور بے شک نمازضرور بھاری ہے، سوائے اُن لوگوں کے کہ جن کے دل اللہ کے حضور جھکنے والے ہیں، انہیں اس بات کا یقین ہے کہ (ایک دن ضرور) وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘ (البقرہ: 45 تا 46)‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ”اور بے شک اللہ نے تمہیں نماز کا حکم دیا ہے، پس جب تم نماز پڑھو تو ادھر اُدھر توجہ نہ کرو کیونکہ اللہ نماز میں اپنی توجہ بندے کی جانب مبذول فرماتا ہے تاوقتیکہ وہ (خود) اپنی توجہ اس سے ہٹا نہ لے‘‘ (ترمذی: 2863)، (2) ”حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تک بندہ نماز میں ہے، اللہ تعالیٰ برابر اپنے بندے کی جانب متوجہ رہتا ہے تاوقتیکہ وہ خود اپنی توجہ ہٹالیتا ہے، پس جب بندہ (اللہ سے) توجہ ہٹا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے رُخ پھیر لیتا ہے‘‘ (ابودائود: 909)، (3) آپﷺ نے فرمایا: ”جب مسلمان پر فرض نماز کا وقت آ جائے تو جو بھی مسلمان اچھے طریقے سے وضو کرتا ہے، نماز اور رکوع میں خشوع کرتا ہے تو یہ نماز اُس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے، جب تک کہ کبیرہ گناہ نہ کرے اور (اللہ کی یہ نوازش) عمر بھر جاری رہتی ہے‘‘ (مسلم: 228)۔ (4) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”نماز اس حضوری کے ساتھ ادا کرو کہ (گویا) یہ تمہاری زندگی کی آخری نماز ہے، کیونکہ اگر تم (اپنی کوتاہ نظری کے باعث) اُسے نہیں دیکھ پاتے تو وہ یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘ (الترغیب والترہیب: 5075)، (5) ”سعید بن مسیّبؒ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ (نماز میں) اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے تو انہوں نے فرمایا: اگر اس کا دل اللہ کے حضور جھکا ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی حضوریِ بارگاہِ رب العالمین کے اثرات ہوتے‘‘ (مصنَّف ابن ابی شیبہ: 6787)، (6) نبی اکرمﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں، پھر آپﷺ نے اس پر شدت فرمائی یہاں تک کہ فرمایا: لوگ نمازوں میں بے توجہی سے باز آ جائیں، ورنہ اُن کی نگاہوں کو اُچک لیا جائے گا‘‘ (بخاری: 750)۔
قبیلۂ جہینہ کی ایک عورت نے بشری کمزوری کے تحت زنا کا ارتکاب کیا ‘پھراُس کواللہ کا خوف لاحق ہوا اور اس نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حضور حدِّزنا جاری کرنے کے لیے پیش کیا‘ اس پر حد جاری ہوئی ‘ پھر نبی ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی تو حضرت عمر ؓنے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! آپ اس کا جنازہ پڑھ رہے ہیں ‘ اس نے تو زنا کا ارتکاب کیا ہے‘ آپﷺ نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے مدینے کے ستّر(گناہگار) افراد میں تقسیم کردیا جائے ‘ تو اُن سب (کی نَجات) کے لیے کافی ہوگی‘کیا تم نے اس سے کوئی بہترین توبہ پائی ہے کہ اس خاتون نے(گناہ کی آلودگی سے طہارت کے لیے) اپنی جان اللہ کے حضور پیش کردی‘ (مسلم:1696)۔
اسی طرح ماعز بن مالک بھی اسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے ‘پھر نادم ہوکر اعترافِ گناہ کیا اور اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے حضور اللہ کی حد کو جاری کرنے کیلئے پیش کیااور ان پر حد جاری کردی گئی ‘دو تین دن کے بعد نبی ﷺ صحابہ کی مجلس میں آئے اور فرمایا: ” ماعز بن مالک کیلئے اللہ سے استغفار کرو‘پس تمام صحابہ نے اُن کیلئے استغفار کیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر پوری امت کے گناہگاروں میں تقسیم کردی جائے تو اُن سب کیلئے کافی ہوجائے‘ (سنن دارَقطنی:3129)‘‘۔ان دونوں کی توبہ محض رسمی توبہ نہیں تھی اور توبہ کا صرف زبانی اظہار نہیں تھا‘ جسے آج کل Lip Service کہتے ہیں‘ بلکہ یہ حقیقی ‘کامل اور مکمل توبہ تھی ‘ یہ توبہ کا درجۂ احسان ‘ اتمام اور اکمال تھا‘ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اُن کی توبہ کی عظمتِ شان کو بیان فرمایا۔ الغرض قلب اور اعضاء کے اعمال کا بلند ترین درجہ احسان واخلاص ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میرے اصحاب کو برا نہ کہو‘ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونابھی (اللہ کی راہ میں) خرچ کرے ‘ تو وہ اُن کے ایک کلو یا نصف کلو (کھجور یا گندم یا جَو) کے اجر کے برابر نہیں ہوسکتا‘ (صحیح مسلم:2541)‘‘۔
بنیاد ی طور پر احسان کی دو قسمیں ہیں: ”اپنے خالق کے ساتھ احسان کرنا‘‘خالق کے ساتھ احسان یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو اس کے احکامات کی بجاآوری کے ذریعے حسین بنا ئے اور اللہ کے ساتھ اپنے معاملے کو حسنِ تعلق اور حسنِ عمل پر استوار کرے۔
اس حدیث میں نبی کریمﷺنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسان کے اعلیٰ وادنیٰ دومراتب بیان فرمائے ہیں:(1)اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی اوراس کی اطاعت وفرمانبرداری میں بندے کے انہماک اورحضوریِ قلب کی کیفیت یہ ہو کہ گویا وہ اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے‘ احسان کی اس کیفیت کو مشاہدہ کہاجاتا ہے‘(2) اگر اللہ کی بندگی میں یہ کیفیت حاصل نہ ہوسکے تو کم از کم بندے کو یقین ِ کامل ہوناچاہیے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے ‘ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو کمالِ حضوری اور ارتکازِ توجہ کے ساتھ انجام دے گا ‘ اس کے ظاہری ارکان و آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا‘احسان کی اس کیفیت کو مراقبہ کہا جاتا ہے۔اس کی مثال یوں سمجھیں کہ جب کسی ادارے کا سربراہ ادارے میں موجود ہوتا ہے اور ملازمین کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسلسل ہماری نگرانی کررہا ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے تو وہ اپنے سربراہ کی ناراضی سے بچنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خوب تندہی اور محنت کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔
احسان کی حقیقت میں یہ بھی شامل ہے کہ بندہ رب سے راضی ہو اور رب کی رضا کا طلب گار ہو‘جیساکہ قرآنِ کریم میں تین مقامات پربیان ہوا: ”اللہ اُن سے راضی ہوااو ر وہ اللہ سے راضی ہوئے اور یہ (درجۂ کمال) اُس کیلئے ہے ‘ جس کے دل میں خَشیتِ الٰہی ہے‘ (البیّنہ:8)‘‘۔ پس مقامِ احسان میں رضائے الٰہی کی حقیقت بھی شامل ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جانوں کو (اُس کے ہاتھ) بیچ دیا ہے اور اللہ بندوں پر نہایت مہربان ہے‘ (البقرہ:207)‘‘ (2)”پھر ہم نے اُن لوگوں کو اس کتاب کا وارث بنایا ‘جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چُن لیاتھا ‘ پس اُن میں سے بعض اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو ہیں اور بعض اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں‘ یہی بڑا فضل ہے‘ (فاطر:32)‘‘۔
(2)”مخلوق کے ساتھ احسان کرنا‘‘۔اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ احسان کا مطلب اُن کے ساتھ نیکی وبھلائی ‘حسنِ سلوک اور شفقت وہمدردی کرنا ہے‘قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے عدل واحسان کا ذکر ایک ساتھ کرتے ہوئے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے‘ (النحل:90)‘‘۔احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے‘ کیونکہ عدل یہ ہے کہ دوسرے کو اس کا حق بے کم وکاست پورا پورا دے اوراس سے اپنا حق کسی کمی بیشی کے بغیر پورا پورا لے اور احسان یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دے اورخودرضاکارانہ طور پر اپنے حق سے کم لے یا خوش دلی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجائے۔ اسی طرح عدل یہ ہے کہ کسی نے اس کو جتنی ایذا پہنچائی تھی وہ اس کو اتنی ہی ایذا پہنچائے اور احسان یہ ہے کہ وہ اس کی زیادتی کو معاف کردے اور اس کے ساتھ نیکی کرے‘اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: ”برائی کا بدلہ اتنی ہی برائی ہے پھر جس نے معاف کردیا اور نیکی کی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم)پر ہے‘ (الشوریٰ:40)‘‘۔نیز فرمایا: ”اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں‘ برائی کا بدلہ نیکی سے دیجیے‘ پس (اس کا نتیجہ یہ نکلے گا) وہ شخص کہ اس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے‘ تمہارا سرگرم دوست بن جائے گا‘(حم السجدہ:34)‘‘‘ اس کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں:
”یعنی جب تم اُس کی برائی کا بدلہ اچھائی سے دو گے‘اس کے برے اعمال کا ردِّعمل اچھے اعمال سے دو گے تو وہ اپنے برے اعمال کو چھوڑ دے گا اور اُس کے دل میں تمہارے لیے عداوت کے بجائے محبت اور بغض کے بجائے مودَّت پیدا ہوگی‘‘۔
حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں: ”میری رسول اللہﷺ سے ملاقات ہوئی‘ میں نے آپ سے ہاتھ ملانے میں پہل کی‘ پھر میں نے عرض کی:یار سول اللہﷺ!مجھے سب سے افضل عمل بتایئے‘ آپ نے فرمایا:اے عقبہ !جو تم سے قطع تعلق کرے‘ اس سے تعلق جوڑو‘ جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کرواور جو تم پر ظلم کرے ‘اس سے درگزر کرو‘ (ایک روایت میں ہے : اس کو معاف کرو)‘(مسند احمد:17452)‘‘۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں : ”اللہ کے رسولﷺنے فرمایا: جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو خواہ وہ تمہارے خلاف ہو‘(الجامع الصغیر:7217)‘‘۔
اسی طرح کسی کی نیکی کے بدلے میں اتنی ہی نیکی کرنا عدل ہے اور اس سے زائد کرنا احسان ہے اور کسی کی برائی کے بدلے میں اتنی ہی برائی سے پیش آناعدل ہے اور اس سے کم درجے میں پیش آنا احسان ہے‘ قرآن مجید میں ہے: ”اگر تم ان کو سزا دو تو اتنی ہی تکلیف دو جتنی تمہیں تکلیف پہنچائی گئی ہے‘ اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے‘ (النحل:126)‘‘۔ جانوروں کے ساتھ بھی احسان کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؛چنانچہ حضرت شداد بن اوس ؓبیان کرتے ہیں : رسول اللہﷺنے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کرنا (حسن سلوک کرنا‘ نیکی کرنا)فرض کردیا ہے‘ پس جب تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور تم میں سے ہر ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ وہ چھری تیز کرے اور ذبیحہ کو راحت پہنچائے‘( مسلم:1955)‘‘ یعنی اس کی تکلیف کوکم سے کم کرے۔
عمر بن عبدالعزیزؒ نے محمد بن کعب قُرظی سے پوچھا: عدل کی تعریف بتائیے!‘انہوں نے کہا: آپ نے ایک بھاری مسئلے کے بارے میں پوچھاہے‘(پس عدل یہ ہے:)اپنے سے چھوٹوں کے لیے باپ (جیسے شفیق) بن جائو ‘ اپنے سے بڑوں کے لیے بیٹے (جیسے اطاعت گزار) بن جائو‘ اپنے ہم عمروں کے لیے بھائی (جیسے مہربان) بن جائو ‘اسی طرح اپنی عورتوں کے لیے نرم دل بن جائو‘ لوگوں کو اُن کے قصور کے مطابق سزا دو‘ غصے میں ایک دُرّہ بھی نہ مارو کیونکہ (غصے کے عالَم میں) تم حد سے تجاوز کرلو گے‘ یہ عدل کی صفت ہے‘ رہافضل! تو اس کی خوبی اور ہے‘حضرت علیؓ سے روایت ہے: نبی ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت کے بہترین اخلاق کے بارے میں نہ بتادوں‘ (وہ یہ ہے:)جو تجھ سے تعلق توڑے‘ اُس سے تعلق جوڑو ‘ جو تمہیں محروم کرے‘ اسے عطا کردو ‘پس یہی احسان ہے‘ (نَضْرَۃُ النَّعِیْم‘ج:2‘ص:72)‘‘۔
شیخ سعدی نے کہا ہے:
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردے” اَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَا‘‘
ترجمہ: ”برائی کا بدلہ برائی سے دینا آسان کام ہے(یعنی اس سے تو نفسِ امّارہ کو تسکین ملتی ہے )‘ اگر مردِ(باکمال ہوتو) برائی کا بدلہ اچھائی سے دو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرّم ﷺ کے اُسوۂ مبارکہ کی صفت بھی ”حَسَنَۃ‘‘ بیان فرمائی ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اخلاقِ عالیہ ‘ اوصافِ حمیدہ ‘ احوال وافعالِ مبارکہ اور کردار وگفتار کو جس زاویے سے بھی دیکھیں‘ وہ بلند ترین مرتبے پر نظر آئیں گے‘ اس لیے اگرچہ ہم ”حَسَنَۃ‘‘کا ترجمہ اچھے یا عمدہ سے کرتے ہیں‘ لیکن درحقیقت اردو زبان میں کوئی ایک ایسا لفظ یا کلمہ نہیں ہے جو ”حَسَنَۃ‘‘کی پوری معنویت پر محیط ہو‘ آپ کی ذاتِ والا صفات سے جو بھی چیز منسوب ہے ‘ اُس میں حُسن ہی حُسن ہے‘ جمال ہی جمال ہے‘ کمال ہی کمال ہے ‘ امام احمد رضا قادری نے بجا فرمایا:
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے ‘کہ گمانِ نَقص‘جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے‘ یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
آپ کے سُخنِ مبارک کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
میں نثار تیرے کلام پر ‘ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
وہ سخن ہے‘ جس میں سخن نہ ہو ‘وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں