دنیا کے کچھ ممالک میں خود کشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ان میں جنوبی کوریا بھی شامل ہے جہاں خودکشی کا تناسب سب سے زیادہ ہے اور خاص طور پر ملازمت پیشہ افراد تو کچھ زیادہ ہی اپنی زندگی سے تنگ ہیں لیکن ایک کمپنی نے اپنے ملازمین میں خودکشی سے نفرت اور زندگی سے محبت کرنے کا عجیب طریقہ اختیار کرتے ہوئے ان کے لیے کفن تیار کیے اور کہا کہ وہ اپنی آخری رسومات خود ادا کریں۔
زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لے جنوبی کورین کمپنی نے عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا جس میں کمپنی کے تمام عملے کو سفید چغہ پہنایا گیا اور اپنے پیاروں کو آخری پیغام لکھنے کی ہدایت کی گئی تاہم اس دوران کمرے میں اچانک آہستہ آہستہ رونے کی آوازیں اور ہچکیاں دھاڑیں مار کر رونے کی آوازوں میں تبدیل ہوگئیں جس کے بعد تمام ملازمین اپنی جگہوں سے اٹھ کر اپنے ساتھ رکھے ہوئے لکڑیوں کے تابوتوں میں جا لیٹے اور آخر میں کالے لباس اور کالے ہیٹ میں ملبوس ایک شخص ان کے تابوتوں کو ایک جھٹکے کے ساتھ بند کردیا اور اس شخص کو موت کا فرشتہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اس ڈرامے کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ تابوت میں جانے سے قبل ان ملازمین کو ان لوگوں کی فلمیں دکھائی گئیں جو زندگی میں خراب حالات کا انتہائی زندہ دلی سے مقابلہ کر رہے ہیں، ان میں ایک ایسی عورت کی فلم بھی شامل تھی جس کا سرطان کا مرض آخری مراحل میں تھا لیکن وہ ان چند دنوں کو بھی بھرپور طریقے سے جینا چاہتی ہے جب کہ ایک عورت کی جرأت کو بھی دکھایا گیا جو پیدائشی طور پر ہاتھ پاؤں سے معذورہے لیکن تیرنا سیکھ گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ڈرامے میں حصہ لینے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہیومن ریسورس کمپنی سے تھا۔ کمپنی کے صدرکے مطابق ان کی کمپنی ہمیشہ اپنے ملازمین کو زندگی کے بارے میں فرسودہ خیالات کو تبدیل کرنے کی ترغیب دیتی ہے تاہم عام طور پر زبانی نصیحت سے لوگوں پر کم ہی اثر ہوتا ہے اس لیے ان کا خیال تھا کہ تابوت کے اندر جانا ان کے لیے ایک چونکا دینے والا تجربہ ہو جس کے بعد وہ زندگی کے بارے میں اپنے رویے کو تبدیل کر سکیں اور مثبت طریقے سے سوچنا شروع کر دیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کمپنی میں ہر صبح اپنے عملے کو کام شروع کرنے سے قبل ایک مشق کرائی جاتی ہے جس میں عملہ انگڑائیاں لے کر اپنے جسم کو سیدھا کرتا ہے جب کہ اس دوران ان کو زبردستی ہنسنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کچھ ہی دیر میں وہ تمام اس طرح ہنس رہے ہوتے ہیں جیسے بہت سارے گدھے ایک ساتھ چیخ رہے ہوں۔
ان تجربات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے ایک خاتون ملازمہ کا کہنا تھا کہ شروع میں تو اس طرح ایک ساتھ ہنسنا بالکل ہی عجیب لگا لیکن جب آپ اپنے ساتھیوں کو ہنستے ہوئے دیکھتے ہیں تو آپ بھی خود بخود ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اس لیے میرا خیال ہے کہ اس سے مثبت اثر پڑتا ہے کیوں کہ ہماری زندگیوں میں ہنسی ویسے ہی بہت کم ہوگئی ہے۔
ایک سروے کے مطابق جنوبی کوریا ان صنعتی ممالک میں شامل ہے جہاں خودکشی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ وہاں کمپنی کی پالیسیوں پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا لیکن ملازمین پر اس دباؤ کے منفی اثرات دیکھے گئے ہیں۔ اکثر لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کو باس کے آنے سے پہلے دفتر پہنچنا ہوتا ہے اور اس کے جانے تک وہاں ٹھہرنا ہوتا ہے۔ کوریا کی اعصابی اور نفسیاتی مسائل پر کام کرنے والی ایسوسی ایشن کے مطابق شدید اعصابی تناؤ کا شکار لوگوں کی ایک چوتھائی اکثریت کے تناؤ کی وجہ ملازمت سے متعلق مسائل ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے عملی تجربوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملازمین خود کو پرسکون محسوس کریں اور ان پر ذہنی دباؤ کم ہوسکے۔