ستمبر کی بات ہے چھ ستمبر کے لیے آفس والوں نے کسی شہید کی فیملی پر پیکج کرنے کے لیے کہا اور شہیدیوں کی فیملیز کی ایک لسٹ بھی میرے حوالے کر دی.. وہاں مجھے شہید ندیم الرحمان کے والد حبیب الرحمان کا موبائل نمبر ملا میں نے ان سے ٹائم لیا. اور مقررہ وقت پر گجر خان میں ان کے گھر چلی گئی.
لانس نائیک ندیم الرحمان سانحہ پشاور میں شہید ہوا تھا.. اکتیس سالہ خوبرو ندیم تین بھائی اور پانچ بہنوں میں سب سے بڑا تھا. اس کی منگنی ماموں کے گھر کی ہوئی تھی. اماں ابا نے بیٹے کی شادی کی تیاری بھی شروع کر رکھی تھی. گھر کے بائیں کونے میں ایک کمرہ اس نیت سے بنوایا کہ شادی کے بعد یہ ندیم الرحمان کو دے دیا جائے گا.
ہمیں اسی کمرے میں بٹھایا گیا.. دیواروں پر ندیم الرحمان کی تصاویر آویزاں تھیں.. ندیم الرحمان کے والد ایک اسکول ٹیچر ہیں ۔ بہت ہی مدبر شخص ہیں ، وہ بڑے صبر سے اپنے بیٹے کا تذکرہ کر رہے تھے. اگرچہ جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینا آسان نہیں ہے۔ میں نے ان کی بات میں بہت دفعہ محسوس کیا کہ ندیم کے جانے سے ان کی زندگی میں کس قدر بڑا خلا آ گیا ہے جو چاہ کر بھی کوئی پورا نہیں کر سکتا. مگر ایک بھی لمحے کو ان کی آنکھ نم نہیں ہوئی.
ندیم کی والدہ سے ملاقات ہوئی وہ سادہ سی گھریلو خاتون تھی. ندیم کے ذکر پر ان کی آنکھ نم ہوئی اس کے بچپن کا تذکرہ کرتے کئی دفعہ آنسو چھلکنے کو بےتاب ہوئے مگر عظیم ماں نے اپنے صبر کی توہین گوارا نہ کی اور ایک آنسو بھی پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نہیں آیا.
بہنوں کا مان ان کا بڑا بھائی دنیاوی دنیا میں بڑا سہارا ہوتا ہے. نم آنکھوں اور کپکپاتی آواز میں وہ بتا رہی تھیں کہ ان کا بھائی ان کے لیے کیا تھا. ان کی ہر خوشی کا محور ان کا بڑا بھائی ہی تو تھا. جس نے ہمیشہ ان کو وہ مان دیا جس کی توقع ہر بہن اپنے بھائی سے رکھتی ہے. وہ بتا رہی تھی کہ کیسے ان کا شہید بھائی ان کی ہر چھوٹی چھوٹی خواہش پوری کرتا تھا اسے بہنوں سے کس قدر پیار تھا. وہ کہنے لگیں ابھی تو بھائی کے سر پر سہرا سجانے کے دن قریب تھے کہ اسے کفن پہنانا پڑا.
ندیم کا دوسرا بھائی بھی پاک فوج میں ہے ۔ ندیم کے والد کا وہ جملہ مجھے بھولے نہیں بھولتا اگر اس ملک کے لیے میرے ایک بیٹے نے قربانی دی تو دوسرا بھی میدان میں اتر آیا ہے. دشمن کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم ڈرنے والی قوم نہیں ہیں ہم قربانی دینا جانتے ہیں. ہمیں موت سے ڈر نہیں لگتا. ندیم کا دوسرا بھائی آپریشن ضرب عضب میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے.
اس کا چھوٹا بھائی بتانے لگا کہ ندیم سے ڈر بھی لگتا تھا کیونکہ بڑا بھائی تھا تھوڑا رعب ضرور تھا مگر ندیم بہت پیار کرتا تھا. وہ کہنے لگا مجھے بھائی بہت یاد آتے ہیں مگر میں جانتا ہوں وہ شہید ہیں ان کا اللہ کے گھر بڑا مقام ہو گا میں ان کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں.
اس خاندان سے ملاقات کے بعد مجھے لگتا ہے ہمت جرات اور بہادری ہماری میراث ہے. ہمت اور بہادری کی داستانوں میں کمی ہو ہی نہیں سکتی ہر روز کبھی سیاچن میں کبھی بارڈ رکے پاس اور کبھی آپریشن ضرب عضب میں ہمارا کوئی فوجی اپنی ذمہ داری نبھاتے ایک نئی داستان رقم کیے جا رہا ہے..
یہ سلسلہ جاری ہے جاری رہے گا. ہر شہید کا خاندان اپنے بیٹے کی قربانی دینے کے بعد جس صبر حوصلے اور جرات کا مظاہرہ کرتا ہے وہ جذبہ بتاتا ہے یہ عظیم داستانیں ختم نہیں ہوں گی ان میں اضافہ ہوتا جائے گا یہاں تک کہ میری ارض پاک سے ہر ناپاک دشمن کا خاتمہ ہو جائے گا انشاءاللہ.