وزیر اعظم عمران خان سوچے سمجھے بغیر بھی بہت کچھ کہہ دیتے ہیں، عواقب پر زیادہ غور نہیں کرتے، وہ برخود راستی کی نفسیات کے حامل ہیں، یعنی درست وہی ہے جو وہ کہیں یا جسے وہ درست سمجھیں۔ حال ہی میں انہوں نے نیویارک ٹائمز کے نمائندوں جیوتی ٹوٹم اور یارابیومی کو وڈیو لنک پر انٹرویو دیا، اُس میں انہوں نے چند باتیں کہیں، اگر وہ اس پر قائم رہتے ہیں اور مقتدرہ بھی اُن کی ہم خیال ہے، تو اسے ہم وطنِ عزیز کی خارجہ پالیسی میں ایک سنگِ میل قرار دے سکتے ہیں۔ وہ امور یہ ہیں: ڈرون حملوں سمیت افغانستان میں فضائی حملوں اور خطے پر نظر رکھنے کے لیے اب امریکا کو اڈے ہرگز نہیں دیے جائیں گے۔ اگر اس پر لفظًا ومعنًا عمل ہوتا ہے تو یہ ہماری پالیسی میں انقلابی تبدیلی کا اشارہ ہے، اگرچہ لوگوں کو اس پر یقین نہیں آ رہا۔
انہوں نے کہا: افغانستان میں کسی متفقہ سیاسی تصفیے سے پہلے امریکا کو وہاں سے نکلنا نہیں چاہیے، جبکہ امریکا افغانستان سے نکلنے کا وعدہ کر چکا ہے اور انخلا کا عمل جاری ہے۔ طالبانِ افغانستان سے یہ معاہدہ ٹرمپ انتظامیہ نے کیا تھا، لیکن بائیڈن انتظامیہ بھی اس پر قائم ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے افغان طالبان کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت بین الافغان مکالمے اور مفاہمت کی بات تو کی لیکن اسے انخلا کے لیے لازمی شرط قرار نہیں دیا۔ ایک زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان ماضی میں امریکا کو بری اور فضائی راستہ دینے کا معاہدہ کر چکی ہے اور تاحال یہ معاہدہ قائم ہے۔
دنیا کے لیے اب بہتر یہی ہے کہ افغانوں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دے۔ ظاہر ہے کہ اس کے دو طریقے ہیں: ایک سیاسی مکالمے کے ذریعے اور دوسرا طاقت کے بل پر، طاقت کا استعمال یقینا خوفناک اور تباہ کن ہوگا اور سردست اس کا انجام کسی کو معلوم نہیں ہے۔
افغانستان کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرنے سے پہلے ہمیں معروضی حقائق کا ادراک ہونا چاہیے۔ طالبان کا موقف یہ ہے ”امریکا نے اُن کی حکومت ”امارتِ اسلامیہ افغانستان‘‘ بزورِ طاقت اُن سے چھینی تھی اور ڈیڑھ عشرے سے زائد عرصے تک انہوں نے امریکا، اس کے حلیفوں اور ان کے تابع فرمان کابل حکومت کے خلاف طویل مزاحمت کی اور بے پناہ قربانیاں دیں۔ پس اسی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج امریکا فاتحانہ نہیں بلکہ ناکامی کے تاثّر کے ساتھ افغانستان سے جا رہا ہے اورکابل میں اقتدار پر براجمان جس طبقے کے ساتھ انہیں مفاہمت کی تلقین کی جا رہی ہے، اُس کا امریکا کے خلاف مزاحمت میں قطعاً کوئی کردار نہیں ہے بلکہ وہ تو اب بھی دہائی دے رہے ہیں کہ امریکا افغانستان سے بالکل نہ جائے اور مستقل طور پر اپنی فوجی موجودگی کو وہاں قائم رکھے۔ لہٰذا اب انخلا کے بعد کابل میں مسندِ اقتدار پر فائز ہونا اُن کا حق ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اس حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے دونوں صدارتی انتخابات متنازع رہے ہیں، انتخابی نتائج طویل عرصے تک رکے رہے اور پھر امریکا کی مداخلت کے نتیجے میں ایک سودا کاری پر منتج ہوئے۔ لہٰذا اُن کا یہ دعویٰ کہ وہ واقعی جمہوری طور پر منتخب حکمران ہیں، محلِّ نظر ہے۔ پہلے بھی جب طالبان برسرِ اقتدار آئے تو جمہوری طریقے سے نہیں آئے تھے بلکہ انقلاب کے ذریعے آئے تھے اور جزوی مزاحمت کے سوا افغان قوم نے انہیں تسلیم کر لیا تھا، امن بھی قائم ہوگیا اور اسلحے و افیون کی کاشت پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا تھا، ان کے نزدیک جدید جمہوریت اسلامی تصورِ حکومت سے متصادم ہے، بلکہ ان کے بعض عناصر اسے نظامِ کفر سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس کے برعکس امریکا، اس کے حلیفوں اور پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ طالبان شرکتِ اقتدار پر تیار ہو جائیں۔ شرکتِ اقتدار کے معنی ہیں: وہ ڈاکٹر اشرف غنی کو صدر تسلیم کر لیں اور اس کی کابینہ میں حصے دار بن جائیں۔ یہ طالبان کو قبول نہیں ہے، کیونکہ اُن کی رائے میں انہوں نے بے بہا قربانیاں نہ ڈاکٹر اشرف غنی کی صدارت برقرار رکھنے کے لیے اور نہ دوسروں کو شریکِ اقتدار بنانے کے لیے دی ہیں۔ نیز شریکِ اقتدار ہونے کی صورت میں ان کے لوگ بھی سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ ساری قربانیاں رائیگاں گئیں، امریکا نواز نظامِ حکومت تو پہلے بھی چل رہا تھا، تو تبدیلی کیا آئی، الغرض ان کی اپنی صفوں میں انتشار برپا ہو گا۔ دوسری جانب اشرف غنی اور اس کے حلیفوں کو اگرعوامی حمایت پر بھروسا ہوتا تو وہ افغانستان میں امریکا کے طویل قیام کے لیے اصرار نہ کرتے۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن نہایت حساس ہو گئی ہے، طالبان کے عہدِ اقتدار کے علاوہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کوئی ایسا دور نہیں آیا کہ افغانستان میں پاکستان کے لیے خیر ہی خیر ہو۔ ہر دور میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طبقات نے پاکستان کو اپنا حریف جانا اور وہ اپنی ہرناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے رہے۔ پاکستان کی ہر بار کوشش رہی کہ کانٹوں سے دامن الجھائے بغیر نکل جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ عہدِ طالبان کے علاوہ بھارت نے ہمیشہ کابل کی حکومت کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا، جبکہ پاکستان کا حال یہ رہا :
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
بظاہر کابل میں پُرامن انتقالِ اقتدار ایک ایسا حسین خواب ہے، جس کی تعبیر پانا دشوار ہے اور خانہ جنگی کی صورت میں ناقابلِ تصور خون خرابہ ہو گا۔ اگرچہ وزیر اعظم نے کہا ہے: ”اگرطالبان نے طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کیا تو پھر ہم افغان سرحد کو بند کر دیں گے، کیونکہ ہم نے اپنی سرحد پر باڑ لگا دی ہے اور اب ہم یہ کر سکتے ہیں، جبکہ پہلے یہ سرحد کھلی تھی، کیونکہ ایک تو پاکستان اس تنازع میں الجھنا نہیں چاہتا اور دوسرا یہ کہ ہم افغان مہاجرین کا ایک نیا سیلاب نہیں چاہتے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا: ”ہم اب کابل میں صرف اس حکومت کو تسلیم کریں گے جو عوام کی منتخب ہو، خواہ وہ کوئی بھی ہو‘‘۔ نیز انہوں نے کہا: ”ہم امریکا کے ساتھ مہذب تعلقات رکھنا چاہیں گے‘‘، ان سے پوچھا گیا ”مہذب تعلقات سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘، انہوں نے جواب دیا: ”ایسے تعلقات جیسے امریکا و برطانیہ اور امریکا و بھارت کے مابین ہیں‘‘۔ ظاہر ہے ایسے تعلقات برابری کی سطح اور باہمی احترام پر مبنی ہوتے ہیں، اس میں ایک فریق کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ دوسرے فریق پر اپنی مرضی مسلّط کرے، سب کچھ مشترکہ مفادات پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات عسکری اور تزویری مفادات پر مبنی رہے ہیں۔ سیٹو، سینٹو، افغان جہاد اور مابعد نائن الیون دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شرکت اس کا واضح ثبوت ہے۔ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ ”برائے خدمت دستیاب ‘‘ کے طور پر لیا ہے، اس نے اپنی دانست میں ان خدمات کا معاوضہ دیا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسے ”اتحادی اعانتی فنڈ‘‘ کا نام دیا گیا۔ خود وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ امریکا پاکستان کی خدمات سے کبھی مطمئن نہیں ہوا، وہ پاکستان کوشک کی نظر سے دیکھتا رہا، ہمیشہ ”ھَلْ مِنْ مَّزِیْد‘‘یعنی ”ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا رہا۔ دوسری طرف کابل میں براجمان امریکا کی کٹھ پتلی حکومت ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتی رہی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اس کے موقوف ہونے کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔
افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اس کے پڑوسی ممالک کی دلچسپی اور تشویش تو قابلِ فہم ہے، سوویت یونین بھی لاتعلق نہیں رہنا چاہتا۔ ترکی اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا بعض گروہوں سے نسلی تعلق ہے اور اب چین کو بھی افغان مسئلے سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ سی پیک، ون بیلٹ ون روٹ اور بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹیو کی کامیابی کا مدار افغانستان میں امن اور تجارت کے لیے محفوظ راہداری پر ہے تاکہ وسطی ایشیا سے لے کر یورپ تک چین کی رسائی ہو، اس کی مارکیٹ کا پھیلائو ہو اور اس کے مفادات کا تحفظ ہو۔ اگرچہ افغانستان میں پشتون آبادی کا تناسب چالیس سے ساٹھ فیصد تک بتایا جاتا ہے، لیکن افغانستان ایک کثیر النسل ملک ہے، اس میں ازبک، تاجک، ترکمان اور ہزارہ نسل کے لوگ بھی شامل ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ہزارہ قبیلے والے منگول نسل کے لوگ ہیں، یہ چنگیز خان کی فوج کا حصہ تھے جو وہ یہاں چھوڑ گیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ہمارے سیکولر، لبرل دانشور، کالم نگار، تجزیہ کار بھی کنفیوزڈ ہیں، ان کی طالبان سے نفرت ہمارے لیے قابلِ فہم ہے، لیکن مشہور محاورہ ہے: ”آپ دوست اپنی مرضی سے بنا سکتے ہیں، لیکن پڑوسی بنانے میں آپ کا چنائو شامل نہیں ہوتا، یہ چیز آپ کو وراثت میں ملتی ہے، آپ کو بہرحال اس حقیقت کو قبول کر کے اس سے نمٹنا ہوتا ہے‘‘، نیز افغانستان کی سرحد سے متصل ہمارے پشتون علاقوں کے ساتھ افغان پشتونوں کا راہ و رسم اور کاروبار تاریخ کے ہر دور میں جاری رہا ہے، بلکہ آج بھی کسی حد تک افغانستان کی معیشت ہم سے جڑی ہوئی ہے اور اگر ہماری قسمت یاوری کرے، ہم حسنِ تدبیر اور بہترین حکمتِ عملی سے کوئی محفوظ راستہ نکال سکیں تو یہ ہمارے لیے ایک تجارتی منڈی بھی ہے۔ ہمارے دفاعی اور حساس ادارے نہ افغانستان سے لاتعلق رہ سکتے ہیں اور نہ اُسے مکمل طور پر بھارت اور ایران کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم یہ لاتعلقی برداشت نہیں کر پائیں گے۔
سرحد پر اگرچہ ہم نے باڑ لگا دی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ جس طرح ہم نے اپنی سرحد پر بھارت کی بنائی ہوئی باڑ کو کشمیر سے لے کر سندھ تک نہیں چھیڑا، افغان بھی مغربی سرحد پر ہماری قائم کردہ باڑ کا ہر صورتِ حال میں اسی طرح احترام کریں گے، کیونکہ بدقسمتی سے طالبان سمیت کابل کی کسی حکومت نے آج تک اسے دل و جان سے تسلیم نہیں کیا۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ طالبان کے پاس اسلحہ کہاں سے آتا ہے، ان کے وسائل کا سرچشمہ کیا ہے، لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ان کی قوتِ مزاحمت بے مثال ہے۔ کوئی انہیں ناپسند کرے، لیکن ان کی دشمنی ہمیں بھاری پڑ سکتی ہے۔ نیز حجم اور سائز کچھ بھی ہو، افغانستان میں ٹی ٹی پی، داعش اور القاعدہ بہرحال موجود ہیں اور ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے ذرّہ بھر نرم گوشہ نہیں ہے۔ ہماری دعا ہے: پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی آگ کا ایندھن نہ بنے، ہم پہلے ہی بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھا چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے بقول ہمیں طویل مدت میں امریکا سے اقساط کی صورت میں بیس ارب ڈالر ملے اور ہم نے ستّر ہزار کے جانی نقصان کے علاوہ اپنی معیشت پر ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان بھی برداشت کیا۔
بشکریہ دنیا