پندرہ سال کی عمر میں میں نے جینا سیکھا تھا.. زندگی کے اصل رنگ ہی اب شروع ہوئے تھے. شرارتوں مزاح اور ہلہ گلہ کرنے میں میرا کوئی ثانی نہیں تھا . دوست مجھے محفل کی رونق کہتے تھے. اونچی آواز میں سر لگاتا گانے گاتا جب میں گھر میں داخل ہوتا تھا تو امی مصنوعی گھوری ڈالتے ہوئے کہتی تھیں تو اب میرا بیٹا جوان ہو گیا ہےاور میں بھی مصنوعی انداز میں سر کجھاتے کہتا تھا امی بہو آپ ڈھونڈیں گی یا میں خود ہی ڈھونڈ لوں ۔امی خفگی سے کہتی تھیں ابھی سے یہ حرکتیں ہیں تو آثار لگ رہے ہیں ہمیں تو بس کارڈ ہی ملیں گے. میں ہنس کر امی کا منہ چوم کر ادھر سے نکل آتا تھا اور رخ چھوٹی کے کمرے کی جانب کر لیتا تھا آخر اس کی چاکلیٹ لیے بغیر میں کیسے گھر آ سکتا تھا..
میرا ارادہ تھا میں جرنلسٹ بنوں گا اور جو ملک دشمن عناصر ہیں ان سب کو بےنقاب کر دوں گا. میرے ابا آرمی میں میجر ہیں. جب میں نے ان کو بتایا کہ میں ڈاکٹر انجینئر نہیں بنوں گا اور نہ ہی فوج میں جاوں گا بلکہ صحافی بنوں گا تو کتنی دیر ہنستے رہے نا جانے کیوں.. پھر وہ کہنے لگے شہزادے جو دل میں آئے کرنا تمہے فری ھینڈ ہے بھئی.. تب سے میں اپنے آپ کو ایک مایہ ناز صحافی کے روپ میں دیکھنے لگا تھا کبھی کسی ایک سیاست دان کو آڑھے ہاتھوں لیتے اور کبھی دوسرے سیاست دان کو دن میں تارے دکھاتے..
میرا ارادہ تھا کہ پیپرز کے بعد میں باقاعدہ تاریخ کی کتابیں پڑھنا شروع کر دوں گا تاکہ میری معلومات میں اضافہ ہوتا رہے..
سولہ دسمبر کا ایسا ہی ایک سرد ترین دن تھا جب امی نے مجھے حسب عادت صبح سویرے اٹھایا اور میں حسب سابق گھڑی دیکھ کر دوبارہ سو گیا امی دس منٹ بعد اٹھوں گا مگر امی نے پورے پانچ منٹ بعد پھر جھنجھوڑ کر اٹھایا ۔ اپنے روزمرہ کے کام نمٹاتی وہ جلدی تیار ہونے کی تلقین کر رہی تھی۔ میں آرام آرام سے اٹھا منہ ہاتھ دھو کر ڈائیننگ ٹیبل تک آیا ۔ امی نے خستہ پراٹھا اور گرما گرم آملیٹ میرے سامنے
رکھا اور میں ساری سستی بھلائے جلدی جلدی ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا.. ابھی آخری نوالہ منہ میں تھا کہ سکول وین آ گئی.
میں نے ہمیشہ کی طرح امی کو گلے لگا کر پیار کرتے ہوئے اللہ حافظ کہا اور سکول روانہ ہو گیا. سکول میں معمول کی روٹین تھی اسمبلی ہوئی ہم کلاسوں میں بیٹھے تھے.. ٹیچرز اپنی اپنی کلاسسز میں لیکچر دے رہے تھے ایسے میں کچھ غیرمعمولی سا احساس ہوا کچھ عجیب و غریب سا شور جو کسی ناگہانی کا پتہ دے رہا تھا.
ایسے میں باہر سے کسی نے آ کر زور سے دروازہ کھولا اور کہا سکول میں دہشتگرد آ گئے ہیں. بچو! زمین پر لیٹ جاو ساتھ ہی زوردار دھماکوں کی آوازیں آنے لگیں کچھ بچے خوف سے بھاگنے کی کوشش کرنے لگے کچھ چلانے لگے ،کچھ کانوں پر ہاتھ رکھے زمین پر بیٹھ گئے. میں کچھ دیر صورتحال سمجھنے کی کوشش کرتا رہا مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ میں بھی زمین پر لیٹ گیا نا جانے ٹیچر کیا کہہ رہی تھی
ایسے میں اچانک بھاری بوٹوں کی آواز آئی جیسے ڈھیر سارے لوگ بھاگتے چلے آ ریے ہیں. میں نے اوپر دیکھا تو ان کے مکروہ چہروں پر نقاب تھا اور وہ اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے. چیختے چلاتے بچے خون میں لت پت ہوتے جا رہے تھے. مگر ان کو کسی پر رحم نہیں آ رہا تھا ۔ ان کی بندوقیں مسلسل گولیاں اگل رہی تھیں ۔ خوف سے میرا دل بند ہو رہا تھا ۔۔ایسے میں ایک اڑتی ہوئی گولی آئی مجھے یوں لگا کہ کوئی بہت گرم چیز میرے آرپار ہو گئی ہے ۔ تکلیف اور درد نے مجھے کچھ سوچنے کا موقع نہیں دیا.
میں امی کو بلانا چاہتا تھا مگر تکلیف کی شدت سے لفظ نہیں نکل پا رہے تھے امی ابو اور چھوٹی بہنا کا چہرہ میری نظروں کے سامنے گھوم رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ سب کچھ دھندلا ہوتا گیا ۔ تکلیف کا احساس، کچھ کہنے سننے کی خواہش اور خوف.. شاید روح جسم کی قید سے آزاد ہو گئی تھی ۔ تبھی تو سکون محسوس ہونے لگا تھا.
اب سب اچھا لگ رہا تھا ہلکا پھلکا احساس مجھے بادلوں میں اڑائے لیے جا رہا تھا.. میں تو غم حیات کے سلسلوں سے آزاد ہو ہو گیا ہوں مگر شاید میرے امی ابو اور چھوٹی بہنا بہت دکھ میں ہیں میں اب ان کے اس دکھ کا مداوا بھی نہیں کر سکتا مگر امی ابو میں پھر بھی آپ کو کہنا چاہتا ہوں آپ رونا نہیں، اس جدائی کو صبر سے برداشت کرنا عارضی دنیا کی اس جدائی کے بعد ہم ضرور ملیں گے جہاں دائمی زندگی ہو گی میں جنت میں آپ کا منتظر رہوں گا..