کابل کی گلیوں میں۔۔۔

جمعہ 2 جولائی 2021 کی صبح اسلام آباد سے افغانستان کے دارالحکومت کابل جانے والی پی آئی اے کی پرواز میں صرف ایک دو ہی افغانی تھے باقی سب پاکستانی مسافر تھے۔

جب سے سعودی عرب نے پاکستان کے لیے اپنی پروازیں بند کی ہیں وہاں کام کاج کی غرض سے جانے والے پاکستانی افغانستان کا مفت ویزہ حاصل کرکے کابل میں 15 دن گزارتے ہیں اور یہاں سے سعودی عرب روانہ ہوجاتے ہیں۔ کم و بیش 45 منٹ کی پرواز کے بعد جب کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ اترا تو یہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ ہوائی اڈے پر جہازوں کی ایک بڑی تعداد کھڑی ہے۔

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا سلسلہ عروج پر ہے اور ملک تیزی سے اندرونی خلفشار کا شکار ہورہا ہے مگر اس کے باوجود دنیا بھر سے آمدورفت کا سلسلہ تھما نہیں۔ستمبر تک اس میں کمی آتی جائے گی اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ کابل آنے کے لیے افغانستان کی اپنی ائیرلائن کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسری پرواز یہاں آسکے۔

آخری بار 17 سال پہلے کابل آیا تھا تو شہر کی ہر عمارت گولیوں سے چھلنی تھی لیکن اب ائیرپورٹ اور گردونواح کے علاقوں میں جدید عمارتیں کھڑی ہیں اور شہر کے اندر سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہیں۔

افغانستان 1979 سے باضابطہ طور پر بین الاقوامی طاقتوں کی باہمی چپقلش کا میدانِ جنگ ہے۔ جو کابل میں جھنڈا لہراتا ہے افغانستان اسی کا ہوتا ہے۔ سابق سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں اتاریں اور اپنا جھنڈا لہرایا تو امریکہ نے پاکستان اور جہادیوں کی مدد سے اسے شکست دی۔

سوویت یونین سکڑ کرروس بنا تو امریکہ کی دلچسپی افغانستان میں ختم ہوگئی۔ اس کے بعد پڑوسی ممالک باہمی تنازعات کی جنگ افغانستان میں لڑتے رہے۔ طالبان نے کابل میں اپنا جھنڈا لہرایا تو مذہب کے نام پر ایسے سخت اقدامات کیے گئے کہ عام پڑھا لکھا افغان بھی ان کے خلاف ہوگیا۔

طالبان حکومت نے افغانستان میں پوست تو ختم کردی مگر عسکریت پسندی اور تشدد کی ایسی آبیاری کی گئی کہ دہشت گردی افغانستان ہی نہیں پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک تک بھی پہنچ گئی۔

امریکہ کو اپنے مفادات کے پیش نظر دوبارہ افغانستان 11/9 کے حملوں کے بعد ہی نظر آیا۔ یہاں فوجیں اتاری گئیں اور امریکی قبضے کے بعد نئی افغان حکومت بھی قائم کردی گئی جس کی سربراہی حامد کرزئی کو ملی۔

دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے کم و بیش 20 سال یہاں گزارے اور تمام تر کوششوں کے باوجود کابل اور چند دیگر علاقوں کے علاوہ افغان حکومت کہیں قدم جما نہ سکی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طالبان تھے جنہوں نے دوبارہ سال 2004 میں عروج پکڑنا شروع کیا۔

اب امریکہ اور اتحادیوں نے انخلا کا آغاز کیا ہے تو طالبان کی کابل کی جانب پیش قدمی شروع ہوگئی ہے لگتا ہے امریکہ طالبان سے صلح کرکے اس کی خدمات چین کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔

عام افغانیوں کے لیے نیا نہیں ہے۔ نئی بوتل میں وہی پرانی شراب۔ جنگ، مارا ماری اور مخدوش مستقبل۔ہم پاکستان میں طالبان بالخصوص افغان طالبان کو بہت آئیڈیالائز کرتے آئے ہیں۔ مذہبی طبقات تو طالبان حکومت کو ایک ماڈل نظام حکومت کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھ پائے کہ طالبان افغانستان کے لیے بالکل ایسے ہی ہیں جیسی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لیے ہے۔

شاید یہ بات بطور ریاست ہم سمجھے ہیں نہ عوام کو سمجھا پائے ہیں کیونکہ ہم نے بھی افغانستان کی جنگ میں ڈالروں کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ہیں۔ یکم جولائی کو پارلیمنٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ’’ پاکستان طالبان کی حمایت نہیں کررہا کیونکہ طالبان اور کالعدم تحریک طالبان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔‘‘

مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ شاید اب ہمیں کچھ سمجھ آگئی ہے لیکن کابل کے گلی کوچوں میں افغانوں کی خود پر اٹھنے والی سوالیہ نظروں کو دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم طالبان کی حمایت کررہے ہیں یا نہیں؟ البتہ عام افغانوں کو یقین ہے کہ طالبان کی پشت پناہی پاکستان کررہا ہے۔

عام افغانی کابل کے گلی کوچوں میں پاکستانیوں کو گھور کے دیکھتے ہیں۔ بعض تو تلخ بات بھی کرجاتے ہیں۔ مجھے بھارت جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے مجھے دہلی سے زیادہ پاکستانیوں کے لیے گھٹن زدہ ماحول کابل میں ملا ہے۔

یہاں جو پاکستانی 15 روز کے لیے سعودی عرب جانے سے قبل عام ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں ان کو خفیہ والے تنگ بھی کرتے ہیں۔ ان منفی باتوں کے علاوہ یہاں ایک ایسا بڑا طبقہ بھی موجود ہے جو پاکستان کو پسند بھی کرتا ہے کیونکہ جنگ اور بدامنی کے دنوں میں پاکستان نے ہی ان کو سرچھپانے کے لیے جگہ اور محبت دی۔ ان کی پاکستان اور پاکستانیوں سے بڑی وابستگی بھی ہے لیکن کہتے ہیں نہ کہ ایک کڑوا بادام سارا ذائقہ خراب کردیتا ہے۔

اس وقت کابل میں خوف کا عجیب سماں ہے۔ ہو بھی کیوں ناں، مرکزی دارالحکومت کابل اور 34 صوبائی دارالحکومتوں کے علاوہ افغانستان کے 372 اضلاع میں سے 117 پر طالبان نے قبضہ کرلیا ہے۔

کابل سے صرف چار سے پانچ گھنٹوں کی مسافت پر موجود صوبہ بغلان کے بعض علاقے بھی طالبان کے پاس چلے گئے ہیں۔ کابل میں بیٹھے لوگ پریشان ہیں کہ طالبان اگلے چند مہینوں میں یہاں پہنچ جائیں گے۔ موت سے زیادہ موت کا خوف مار دیتا ہے۔ آج کل کابل کے گلی کوچوں میں ایسا ہی خوف راج کررہا ہے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے