سقوط ڈھاکہ کی صرف وہ وجہ نہیں تھی

پاکستان دشمن صحافیوں تجزیہ نگاروں کچھ خارجی و خارشی حلقوں اور کچھ بے شرم سیاسی لوگوں کی طرف سے بار بار یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں 90 ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے جبکہ ایک غیرجانبدار رپورٹ کے مطابق مشرقی پاکستان میں پہلے پاکستانی افواج کی تعداد 20 ہزار تھی جو دسمبر میں بڑھا کر 36ہزار کردی گئی۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ 90 ہزار فوجیوں کو قید کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد جن کو بھارت نے اپنی قید میں لیا تھا ان کی تعداد میں تضاد سے کام لیا گیا۔

سابق بھارتی لیفٹیننٹ جے ایف آر جیکب نے اپنی کتاب ’’سرنڈرایٹ ڈھاکا، برتھ آف اے نیشن‘‘ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں ایک ہزار 421 بھارتی فوجی ہلاک، 4 ہزار 58 زخمی اور 56 غائب ہوئے، 4 ہزار پاکستانی فوجی شہیدہوئے تھے۔

انھوں نے اپنی کتاب میں کہاکہ 26 ہزارسے زیادہ پاکستانی فوجی بھارتی قید میں نہیں تھے۔ یعنی قیدی فوجیوں کی تعداد 26 ہزار یا اس سے کم تھی۔جبکہ پاکستانی قیدیوں میں پچاس ہزار کے قریب سویلین تھے جن میں عورتیں‘ بچے‘ بوڑھے اور دیگر دفتری عملہ شامل تھا۔ اب یہ 35 36 ہزار کے قریب لڑاکا فوج تھی اور انہیں فضائیہ کی امداد بھی میسر نہ تھی۔ پھر سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ جب پاکستانی فوجی بھارت کی پیش قدمی روکنے کے لئے آگے بڑھتے تو مکتی باہنی پاکستانی فوجیوں پر حملے کرتے اور کچھ عقب سے فوج پر گوریلا کارروائیاں کرتے یوں پاکستانی فوج کو کئی ایک محاذوں پر دشمن کا سامنا تھا۔

‘‘مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی میں کتنے بنگالی مارے گئے، اس معاملے پربہت سی آرا سامنے آئی ہیں۔ چند بھارتی حلقوں کے مطابق اس میں 30لاکھ، کچھ کے مطابق 3لاکھ اوربعض کے مطابق 1لاکھ تھے تاہم پاکستان کے مطابق اس میں تقریباً 26 ہزار لوگ لقمہ اجل بنے جبکہ حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ نے بھی پاکستانی تعداد سے اتفاق کیا ہے۔

معروف دفاعی تجزیہ نگار شرمیلا بوس نے اپنی کتاب’’ڈیڈری کوننگ‘‘ میں کہا ہے کہ اس حوالے سے افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بعض حلقوں نے بنگالیوں کے مرنے کی جانب زیادہ ترتوجہ مبذول کرائی ہے لیکن مکتی باہنیوں کے ہاتھوں مرنے والے پاکستانیوں اور غیر بنگالیوں کی اموات کے حوالے سے کہیں نہیں بتایاگیا۔

یکم مارچ تا 25مارچ کے عرصے کے دوران ہزاروں پاکستانیوں کومارا گیا جن میں سرکاری ملازمین، کاروباری حضرات اوردیگر افراد شامل تھے جن کی تعداد 30 سے 40 ہزار بتائی گئی ہے جسے بنگالیوں نے تسلیم کیا ہے۔

عالمی تبصرہ نگاروں کے مطابق 20 ہزار سے 2لاکھ جبکہ امریکی قونصل خانے کے مطابق 66 ہزار کے قریب غیربنگالیوں کو مارا گیا جن میں سے 15ہزار کو بوگرا، 12ہزار کو چٹاگانگ اور 5 ہزار کو جیسرو میں مارا گیا۔

حمودالرحمن کمشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’مشرقی پاکستان کی فوج نے ہوائی اور بحری امداد کے بغیر بڑی کم افرادی قوت کے ساتھ جنگ لڑی تھی۔‘‘

اس میں شک نہیں کہ مشرقی پاکستان میں موجود فوج ساڑھے سات کروڑ بنگالیوں اور باغیوں کی بغاوت کچلنے کے لئے ناکافی ہی نہیں انتہائی قلیل بھی تھی۔ باوجود اس کے تقریباً نو ماہ تک یعنی 7مارچ 1971سے 16دسمبر 1971تک مسلسل باغیوں سے نبردآزما رہی جو قابل ستائش بھی ہے اور بابِ شجاعت بھی اور پھر بھی 26دنوں تک 21نومبر سے 15دسمبر 1971تک بھارت کی پانچ لاکھ عددی اعتبار سے برتر فوج کو روکے رکھا۔

بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس کی تقریباً 88بٹالین جن کی تعداد تقریباً 83ہزار افراد پر مشتمل تھی‘ وہ بھی پاکستانی افواج کے خلاف جارحیت میں پیش پیش تھی۔

مشرقی پاکستان میں پولیس کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا۔ علاقے کا ایس ایچ او فوج کو بھی اپنی وفاداری کا یقین دلاتا رہتا تھا اور علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی بھی کیا کرتا تھا۔

فوج چونکہ جغرافیائی طور پر محل وقوع سے شناسا نہیں تھی‘ اس لئے باغیوں کی سرکوبی کے لئے جہاں کہیں کارروائی کرنا مقصود ہوتی تو علاقے کے ایس ایچ او کو اطلاع کی جاتی تھی‘ پھر پولیس کی شمولیت سے ریڈ کیا جاتا تھا۔ مگر ایس ایچ او اس سے پہلے باغیوں کو مطلع کر دیا کرتا تھا اور یوں ناکامیاں آڑے آتی چلی گئیں۔

ایسی صورت حال میں افواج پاکستان کہاں تک لڑتیں اس کے باوجود جب نامساعد حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کا آرڈر ملا تو فوجی جوانوں کی بڑی تعداد نے تاریخ میں پہلی بار اپنی کمان کی حکم عدولی کرتے ہوئے لڑنے پر بضد رہے اور شہادتیں پیش کیں۔

آج بے شرم میڈیا اور دو ٹکے کے دانشور اٹھ کر اس جنگ کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ پاکستانی قوم کی نظروں میں اپنے فوجی جوانوں کو مجرم بنا کر پیش کرتے ہیں جبکہ بھارت کے اس وقت کے آرمی چیف سمیت لاتعداد غیرجانبدار ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جنگ میں بزدلی دکھانے کے علاوہ قتل و غارت عصمت دری اور لوٹ مار کے جو الزامات پاک فوج پر لگائے جاتے ہیں وہ صرف اور صرف جھوٹ کا پلندہ ہیں۔

میرے عزیزو آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نئی نسل کو اس وقت کے حالات و واقعات اور اس سانحے کے نتیجے میں ملنے والے سبق سے آگاہ کریں انتظامیہ کی نااہلیاں اپنوں کی غداریاں اور دشمن کی عیاریاں انہیں ہر اس چیز سے روشناس کروائیں جس کے بارے میں آج تک دشمن میڈیا اور بکاؤ دانشور ابہام پیدا کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے