ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاک بھارت مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے باہمی تعلقات کی دوریوں کی وجہ سے خطے کے امن و ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں اور بھارت کے پاکستان میں ہائی کمشنر تعلقات کی دوریوں میں مزید اضافہ پیدا کرنے کی کوشش میں فرماتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات مسئلہ کشمیر پر نہیں ’’مسئلہ آزاد کشمیر‘‘ پر ہوں گے یعنی نہیں ہوسکیں گے اور اگر ہوں گے تو کسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور بغیر کسی نتیجے کے ہوتے چلے جائیں گے جو کہ نہیں ہو سکتا۔
یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ کسی ملک کے سفیر یا ہائی کمشنر اپنے ملک کے وزیر خارجہ یا دفتر خارجہ کی مرضی، پالیسی یا ارادوں کے خلاف کوئی بات کریں چنانچہ عام لوگوں کے خیال اور ذہن میں بھی یہی بات آسکتی ہے کہ بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ بھی یہی سوچتی اور یہی ارادہ رکھتی ہیں کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان جو دوریاں پیدا ہو چکی ہیں ان کے فاصلوں میں کمی نہ کی جائے اور بے معنی اور بے مقصد مذاکرات جاری رکھے جائیں۔ مسئلہ جموں و کشمیر پر مذاکرات کرنے کی بجائے مسئلہ آزاد کشمیر پر مذاکرات کئے جائیں۔اگر کسی ملک کے سفیر یا ہائی کمشنر اپنے ملک کے دفتر خارجہ کی مرضی کے بغیر کوئی بیان جاری نہیں کر سکتے تو یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ریاست جموں و کشمیر کی تیسری نسل کی جاری جدوجہد کی موجودگی میں بے مقصد اور منفی ارادوں کے مذاکرات جاری رکھے جاسکیں۔ فیض احمد فیض کے مطابق سفینہ غم دل کا بھی کہیں نہ کہیں ساحل مراد ہوتا ہے اور شب سست موج کی بھی کوئی نہ کوئی صبح ضرور ہوتی ہے اور کشمیر کی آزادی کی جدوجہد ہزاروں زندگیاں قربان کرنے کے بعد بھی اپنے مقصد کے حصول میں ناکام نہیں ہو سکتی چنانچہ اس جدوجہد کے منطقی نتیجہ کے رونما یا برپا ہونے سے گریز نہیں کیا جا سکتا۔ نسل آدم اور پوری انسانی زندگی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس تحریک میں پوری قوم حصہ لے رہی ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتی تحریک آزادی کشمیر میں بھی پوری کشمیری قوم عملی طور پر حصہ لے رہی ہے اور لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دے چکی ہے چنانچہ یہ تحریک بھی ناکام نہیں ہوسکتی بلکہ اس تحریک کے اندر سے اور بہت سی آزادی اور خودمختاری کی تحریکیں جنم لے سکتی ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کی طرح وہ تحریکیں بھی ساحل مراد تک پہنچ سکتی ہیں۔
تاریخ کے بہت سے ماہرین یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے حکمران اگر کشمیر کے لوگوں کو ان کی مرضی کے فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تو انہیں اندیشہ ہے کہ اگر کشمیریوں کو آزادی دی گئی تو پھر پورا پینڈورا بکس کھل جائے گا اور آزادی کی دیگر تحریکوں کو بھی کامیابی کا منہ دکھانا پڑے گا اور وقت کی تیز ندی سے گزرتے وقت بھارتی یونین کی گٹھڑی کھل جائے گی اور کوئی ایک تنکا بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ جس طرح ہمسائے ’’ماں جائے‘‘ سمجھتے جاتے ہیں اسی طرح ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی برادرانہ رشتہ ہوتا ہے۔ کسی ہمسائے ملک کو اپنے پڑوسی ملک کی تباہی اور بربادی کی خواہش نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان بھی ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کی بہتری، ترقی اور خوشحالی چاہتا ہے اور ہندوستان کو بھی پاکستان کی بہتری اور ترقی کا ہی فائدہ پہنچے گا۔ سشما سوراج کی یہ بات صحیح ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے باہمی تعلقات میں دوریاں اگر پاکستان کے لئے نقصان دہ ہیں تو ہندوستان کے لئے بھی فائدہ مند نہیں ہوسکتیں چنانچہ خود اپنے حق میں انصاف کی راہ اختیار کرنے کی کوشش فرمائیں!
بشکریہ روزنامہ "جنگ”