ڈونلڈ ٹرمپ سے دُنیا بھر کے مسلمان بہت ناراض ہیں۔ پراپرٹی کے کاروبار سے اس نے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ رنگین مزاج ہے اور خود کو ’’وکھری ٹائپ‘‘ ثابت کرنے کے جنون میں ہمہ وقت مبتلا۔ امریکہ اور یورپ میں ٹرمپ ایسے لوگوں پر صرف ہنسا جاتا ہے۔ ان کی حرکتوں کو Eccentric قرار دے کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو نظرانداز کرنا مگر اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نومبر 2016ء میں امریکی صدارت کے لئے جو انتخاب ہونا ہے ٹرمپ نے اس میں حصہ لینے کے لئے ری پبلکن پارٹی کی ٹکٹ حاصل کرنے کی مہم زورشور سے جاری کر رکھی ہے۔ امریکی سیاست کو خوب سمجھنے والے مبصرین نے کئی مہینوں تک اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ کئی لکھاریوں نے بلکہ فیصلہ سنا دیا کہ ری پبلکن پارٹی کی صدارتی ٹکٹ کے امیدواروں کے درمیان ہوئے پہلے مباحثے میں ٹرمپ نے ایک خاتون اینکر کے ساتھ بیہودہ رویہ اختیار کرتے ہوئے خود کو شائستہ اقدار کے روایت پرست افراد کے لئے قطعی طورپر ناقابلِ قبول بنادیا ہے۔
ہمارے سپاہِ پارسائی سے منسلک لکھاریوں کی تحریروں کی بدولت پاکستانی عوام کی اکثریت اس گماں میں مبتلا ہے کہ امریکہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کے رہنے والوں کو خاندانی اقدار کی کوئی پرواہ نہیں۔ دینِ حق سے محروم امریکی فسق وفجور کے ماحول میں رہتے ہیں۔ انتہائی سفاکی سے بس دولت کمانے اور ہم ایسے نیک معاشروں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ سات سمندر پار تقریباََ چار سو سال قبل دریافت ہوئے اس بہت بڑے ملک میں کئی بڑے شہروں کے درمیان سفر کرنے کے لئے ہوائی سفر کو بھی سات سے آٹھ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ عموماََ اسے مغربی اور مشرقی حصوں میں تقسیم ہوا سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک وسیع تر Midwest بھی ہے اور بالآخر ہوائی نام کا جزیرہ۔ ان خطوں میں بولی جانے والی زبانیں اور لہجے دیگر خطوں کے باسیوں کے لئے سمجھنا کافی دانشور ہوتا ہے۔
امریکہ بنیادی طور پر تارکین وطن کا ملک ہے۔ اس کی آبادی کا سب سے بڑا اور طاقتور حصہ یورپی ممالک سے قحط سالیوں اور بے روزگاری سے تنگ آکر آباد ہوا تھا۔ امریکہ کو اس سماجی اتھل پتھل کا سامنا بھی ہرگز نہیں کرنا پڑا جو دوعالمی جنگوں نے یورپ پر مسلط کی تھیں۔
یورپ اور باقی دُنیا سے کٹے امریکی معاشرے میں کٹر مذہبی لوگوں پر مشتمل ایک Bible Beltبھی ہے۔ مسیحی مبلغین اس Beltپر بہت اثر رکھتے ہیں اور مختلف ٹی وی شوز میں ہمارے ہر دلعزیز ’’بالم آن لائن‘‘ کی طرح ’’مذہبی پروگراموں‘‘ کے نام پر بے تحاشہ دولت بھی کماتے ہیں۔ عام امریکی، خواہ کسی بھی شہر یا قصبے سے تعلق رکھتا ہو کافی سادہ مزاج، عموماََ دیانت دار اور اپنے خاندان اور اس کی اخلاقی اقدار کا جبلی پیروکار ہوتا ہے۔
1980ء کی دہائی سے وہاں ایک اور رویہ بھی متعارف ہوا ہے جسے Politically Correctکہا جاتا ہے۔ اس رویے کی وجہ سے آپ کسی سیاہ فام امریکی کو ننگیرو یا حبشی کہہ کر نہیں پکارتے۔ انہیں Afro-Americanکہا جاتا ہے۔ معذور افراد کو کسی نہ کسی حوالے سے Challengedکہا جاتا ہے۔اسے اندھا، لنگڑا یا کانا وغیرہ نہیں کہا جاتا۔ عورتوں کو مردوں کے برابر سمجھنا ایک سماجی مجبوری بن چکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے لیکن Politically Correct کہلاتے اس رویے کی تمام تر جزئیات کو بہت ڈھٹائی اور تمکنت سے تہہ وتیغ کر دیا ہے۔
عورتوں کے ساتھ گستاخانہ کلمات کے مسلسل استعمال کے بعد وہ شروع ہو گیا لاطینی امریکہ سے آئے ہسپانوی زبان بولنے والے تارکین وطن کے بخیے ادھیڑنا۔ اس کا وعدہ ہے کہ امریکی صدر منتخب ہوجانے کے بعد وہ امریکہ کی لاطینی امریکہ سے ملنے والی سرحد پر دیوار برلن جیسی رکاوٹیں تعمیر کر دے گا۔
پیرس میں ہوئے حملوں کے بعد اب اسلام اور مسلمان اس شخص کی گندی زبان کا مستقل نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ تمام مبصرین جو چند ہی ہفتے قبل تک یہ طے کربیٹھے تھے کہ ٹرمپ خود کو ’’وکھری ٹائپ‘‘ کا جنونی ثابت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں بالکل ناکام رہے گا، اب بہت پریشانی سے یہ خطرہ محسوس کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ ری پبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ وہ ناکام رہا تو اس کا قریب ترین حریف Ted Cruzبازی لے سکتا ہے۔ یہ شخص اگرچہ امریکہ کی ایک مشہور ترین یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہے مگر اپنے ضمیر میں ٹرمپ جیسا ہی شمار کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈٹرمپ کی دن بدن بڑھتی مقبولیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ اس کے بڑھتے ہوئے اثر کے بارے میں سب سے زیادہ پریشان امریکہ ہی کے بہت سوچ بچار کے بعد لکھنے والے لوگ ہیں۔ راجر کوہن بھی ایسا ہی ایک کالم نگار ہے۔ دو روز قبل اس نے نیویارک ٹائمز میں بہت دُکھی دل کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ اب ٹرمپ کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہو رہا ہے۔ اکثر یہ خیال اس کی نیند غارت کر دیتا ہے کہ ہٹلر جیسا مسخرہ بھی تو اپنی بدزبانی کی وجہ سے جرمن جیسے ملک کو، جو فلسفے اور موسیقی کے ساتھ اپنی عقیدت اور محبت کے حوالے سے یکتا سمجھا جاتا تھا، مکمل جنون میں مبتلا کر کے دوسری عالمی جنگ کی طرف لے گیا تھا۔ امریکی عوام کو بیدار ہو کر اب یہ عہد کر لینا چاہیے کہ وہ ٹرمپ جیسے شخص کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ٹرمپ کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے دریغ بدزبانی کے بارے میں کئی پاکستانی بھی بہت چراغ پا نظر آ رہے ہیں۔ ان کا غصہ برحق ہے۔ ٹرمپ کو فیس بک اور ٹویٹر پر بے نقاب کرنے والے ان بہت ہی حساس پاکستانیوں نے مگر کبھی یہ نہیں سوچا کہ ان کے اپنے ملک میں ان دنوں کیا ہو رہا ہے۔
اسلام آباد پاکستان کا دارلحکومت ہے۔ یہاں کچی بستیاں بھی موجود ہیں۔ جب یہ بستیاں آباد ہونا شروع ہوتی ہیں تو یہاں کے حکام ان کے پھیلائو کو روکنے کے لئے ہرگز متحرک نہیں ہوتے۔ بہت عرصہ گزر جانے کے بعد ایک دن اچانک انہیں خیال آتا ہے کہ پاکستان کے سب سے زیادہ صاف اور منظم جانے والے شہر میں کچی بستیاں بہت پھیل رہی ہیں۔ انہیں بلڈوزروں سے صاف کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو امن وامان کے شدید مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہفتے قبل اسلام آباد کی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کوایک بارپھر کچی بستیاں مسمار کرنے کا دورہ پڑا۔ میڈیا میں بہت ہاہاکار مچی۔ معاملہ اب عدالت کے روبرو ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو سی ڈی اے کے وکیل نے تحریری طورپر آگاہ کیا ہے کہ اگر اسلام آباد میں کچی بستیوں کے پھیلائو کو سختی سے نہ روکا گیا تو ناروال، شکرگڑھ، شیخوپورہ اور فیصل آباد میں مقیم پاکستانی مسیحی دھڑا دھڑ اسلام آباد پہنچ کر ان بستیوں میں آباد ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ایسے افراد کی بوچھاڑ سے بالآخر وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ اسلامی جمہوری پاکستان کا دارلخلافہ ایک مسیحی اکثریتی شہر بن جائے۔
ہمارا The Nationواحد اخبار ہے جس نے سی ڈی اے کے اس دعوے کو تفصیل کے ساتھ شائع کیا اور اس کی کڑے الفاظ میں اپنے ادارتی صفحات پر مذمت بھی کی۔ کراچی میں کرپشن کے خاتمے کی دھن میں مبتلا ہمارا ہمہ وقت چوکس اور مستعد میڈیا مگر اجتماعی طورپر اس دعوے کا نوٹس ہی نہیں لے پایا۔ سی ڈی اے میں بیٹھے ہمارے ’’ڈونلڈٹرمپ‘‘ انتہائی ڈھٹائی سے اپنے دعویٰ پر اب بھی بہت شدت سے قائم ہیں اور ان کی مذمت مجھے ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس میں شاذ ہی نظر آتی ہے۔ دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت کب اپنائیں گے؟ بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت”