سوات۔۔۔ جو قدرت کے حسن کا مظہر اور دلکش نظاروں کی وادی ہے۔سرسبزوشاداب وادیاں، بہتے جھرنے، شورمچاتی آبشاریں ، خراماں خراماں چلتی ندیاں اس خطے کا ظاہری حسن جبکہ خوش اخلاق،ملنساراورمہمان نواز لوگ یہاں کے ظاہری حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔مدتوں سے یہ سوات امن وآشتی اور محبت والفت کی وادی رہی پھر نہ جانے اسے کس کی نظر کھا گئی کہ سوات میں آتش وآہن کی بارش ہونے لگی،قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا،کشت و خون کی ہولی کھیلی جانے لگی،سوات اور گردونواح میں بسنے والے اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے،در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔پھول سے بچوں کو پردیس کی زندگی کاٹنا پڑی، حسن کی وادی میں بسنے والوں نے متاثرین کے کیمپوں میں بسیرا کیا ۔اس اذیت اور کرب سے سب سے زیادہ مذہبی طبقات گزرے ۔لبیفوج انہیں شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی،وہ فوجیوں کی سختی اور درشتگی کا نشانہ بنتے، گھر گھر تلاشی، چیک پوسٹوں پر توہین و تذلیل،بال کی کھال اتارنے والی تفتیش اور لمحہ بہ لمحہ پیش آنے والے مسائل نے ڈاڑھی پگڑی والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔نام نہاد طالبان طعنے دیتے ، گردنیں کاٹتے،کبھی حکومت کا ہر کارہ اور کبھی امریکا ویورپ کا ایجنٹ قرار دیتے ،بھتے وصولے جاتے ،لوگوں پر جبر و تشدد کے پہاڑ توڑے جاتے ،ظلم و ستم کی لاٹھیوں سے ہانکا جاتا۔
دینی ادارے اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔دوطرفہ لڑائی کی زد میں آنے والے اداروں کو دوہرے جبر کا سامناتھا، ایک طر ف سے یہاں تک ہوا کہ تنکا تنکا جوڑ کر اور پائی پائی چندہ جمع کرکے بنائی جانے والی عمارتیں ملبے کے ڈھیربنا دی گئیں اور دوسری طرف سے مدار س کو معسکر ات میں بدلنے کی کوشش کی گئی ،پناگاہیں بنالینے پر اصرارکیا جاتا رہا لیکن وہاں کے اہلِ مدا رس نے ریاستی جبرکا صبر سے اور بے لگام تشدد کا تدبر سے مقابلہ کیا چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں بہتری آنے لگی ،جبر کے سائے چھٹنے لگے، سنگینوں کی سنگینی سے نجات پائی، بارود کی بوسے چھٹکارا ملااور سوات کے حالات اپنی جگہ پر آگئے اور اللہ کا شکر ہے کہ اب وہاں راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔
سوات میں تو حالات معمول پر آگئے مگرہم دور بیٹھے ہوئے ابھی تک یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید سوات کا وہ امن نہیں لوٹ پایا، شاید سوات کی رونقیں بحال نہیں ہو سکیں،شاید سوات میں ڈاڑھی پگڑی والاکوئی نہیں بچاہوگا، شاید سوات کے سارے مدرسے اجھڑ گئے ہوں گے ،شاید سوات کے علماء وطلباء ڈرے سہمے ہوئے اپنے حجروں سے نکلنے کی جرأت نہیں کرتے ہوں گے، شایدسوات میں ہر طرف ویرانی ہو گی، شاید سوات میں ہر طر ف سناٹا ہو گاچنانچہ جب وفاق المدار س نے ملک گیر اجتماعات کے انعقاد کا اعلا ن کیا اور اس فہرست میں سوات میں ایک اجتماع کے انعقاد کا تذکرہ پڑھا تو سہم گیا اور سوچنے لگا کہ اگر اکابر کی طرف سے اس کنونشن میں شر کت کا اذن ملاتو کیاکروں گا؟ اور بالآخر وہی ہواحضرت مولانامحمدحنیف جالندھری نے اپنے محبت بھرے انداز میں کنونشن میں شرکت کا حکم دیاتوہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی پھر جب میرِ کاروانِ اہل حق امام المحدثین حضرت مولاناسلیم اللہ خان کی قیادت میں ہمارا قافلہ سوات کی طرف روانہ ہوا تو راستے میں مسلسل وظائف کا ورد کرتا رہا،کبھی خیال آتاکہ حضرت شیخ نے جب اس پیرانہ سالی میں اتنے کھٹن سفر کا فیصلہ کیاتو ہمارے لئے کیامشکل ہے؟ کبھی تسلی ہوتی کہ مولانا مفتی رفیع عثمانی،مولانا انوار الحق ،مولانا محمد حنیف جالندھری ، مولاناقاضی عبدا لرشید ،مولانا پیر عزیزالرحمن ،مولانا حسین احمد، مولاناولی خان المظفراور دیگر بہت سے علماء ساتھ ہیں اس لیے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ مصیبت جب عام ہو جاتی ہے تو ہلکی محسوس ہوتی ہے لیکن پھر ٖخیال آتا نہ جانے کیا ہوگا ؟حالات کیسے ہوں گے ؟ماحول کیاہوگا؟انہیں واہموں ، خدشات اورخیالات کے ہجوم میں جب سوات پہنچے تو رات ہو چکی تھی ،اندھیرے اور سردی نے سوات پر اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے ،
استقبال کے لیے آنے والوں کے خلوص ومحبت اور والہانہ پن کو دیکھ کر دیدہ ودل فرش راہ کیے جانے کا مفہوم پہلی دفعہ سمجھ میں آیا تھا،میزبانوں کی مہمان نوازی نے حیران کیا تھا لیکن کامل اطمینان نہیں ہوا تھا،مولانا قاضی عبدالرشید کے لطائف وظرائف اور مولانا ولی خان المظفر کی باغ وبہار شخصیت کی بدولت ہماری اقامت گاہ کشت زعفران بنی رہی لیکن اس کے باوجود خدشات سے چھٹکارا نہ پایا جا سکااورپوری رات وظائف واوراد ،سونے جاگنے کی آنکھ مچولی اور سردی سے بچنے کی کوشش میں بیتی۔ صبح ہوئی تو سچ مچ سوات جاگ اٹھا تھا، مینگورہ کا ودودیہ ہال ایک چمن کا منظر پیش کر رہا تھا، تاحدنگاہ علماء کر ام اور دینی مدارس کے اساتذہ کا جم غفیر،ڈاڑھیوں اور پگڑیوں والے نورانی چہرے۔۔۔ اتنے کھٹن حالات نے سوات کے مولویوں کا کچھ بھی نہ بگاڑاتھا ،آتش وآہن کی بارش نے سوات کے مدارس کی عمارتوں کو تو شاید نقصان پہنچایاہوگالیکن وہاں کے استاداور شاگرد کا رشتہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا تھا ، تعلیم وتربیت کے سارے سلسلے جاری وساری تھے ،سازشوں کی گھٹائیں آئین ،چھائیں اور برسیں لیکن سوات کے اہلِ حق کی استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اخبارات اور میڈیا کی نظر سے گزشتہ کئی برسوں سے سوات کو دیکھنے او ر سوات کا ایک نقشہ دل ودماغ میں بٹھانے والا یہ مسافر حیران اور ششدر تھا کہ یاالٰہی !یہ ماجراکیاہے ؟ہم تو سمجھتے تھے کہ شاید سوات میں کو ئی بندہ خدا باقی نہیں بچاہو گا اور یہاں تواہلِ علم کی ایسی بہار ہے کہ صرف ودودیہ ہال ہی نہیں اس کے باغیچے اور چمن بھی اہل علم سے بھرے ہوئے تھے ۔ سب سے دلچسپ منظر ودودیہ ہال میں منعقدہ استحکام مدارس کنونشن کے اسٹیج کا تھا ۔
ہمارا خیال تھاکہ سوات میں حکومتی اداروں اور مذہبی طبقات کے مابین بدترین کشمکش ہوگی، فوجی اور مولوی تو ضرور ہی دست وگریباں ہو ں گے، پولیس والے اور ڈاڑھی پگڑی والے ایک دوسرے کو دیکھنے اور ملنے کے رواداربھی نہ ہوں گے لیکن وفاق المدارس کے اس اجتماع میں مولانا قاری صدیق احمد ،مولانامحب اللہ ،برادرم کر م الہی اور ان کے رفقاء نے اپنی بصیرت اور شبانہ روز محنت کے نتیجے میں ودودیہ ہال میں جو گلدستہ سجایاتھااس نے ان تمام واہموں کو غلط ثابت کر دیا،فوج کے کرنل علی یاسر جس نیاز مندی سے اکابر اہل حق کی دست بوسی کر رہے تھے، ڈی آئی جی آزادخان نے حضرت شیخ سلیم اللہ خان صاحب کے سامنے جس خلوص کا مظاہرہ کیا، ناظمِ سوات محمد علی جس طرح شروع سے آخر تک ہم تن گوش رہے ،ڈاکٹر قبلہ ایاز اورسوات کے عصری تعلیمی اداروں سے وابستہ ماہرین تعلیم نے جس طرح اس اجتماع کو رونق بخشی وہ یقیناًقابل تحسین تھا۔مقررین میں سے جس جس نے اظہار خیال کیا اس کی زبان سے پھول ہی برسے، محبتوں اور الفتوں کے زمزمے گونجے ،مقامی مسؤولین ،مہمان مقررین ،اکابر علماء کر ام اورقائدین وفاق ہر ایک کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کی آمد ہی اہل سوات کے لیے پرسہ تھی اور ان کا مختصر سا خطاب اجتماع کا خلاصہ ۔۔۔شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان نے مولانا محمد حنیف جالندھری پر کامل اعتماد کا اظہار کیا اور ان کی گفتگو کو وفاق المدارس اور اپنی حقیقی ترجمانی قراردیا ، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی نے اختتامی کلمات ارشاد فرمائے ،
حضرت صدر وفاق کی دعا اور حکم سے ترجمانِ اہل حق مولانامحمدحنیف جالندھری نے اپنے مدلل ،دلنشین اور پر کشش انداز میں دینی مدارس کا مقدمہ بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ،دینی مدار س کی خدمات پر روشنی ڈالی ،دینی مدارس پر لگائے جانے والے الزامات کے مسکت جوابات دیے،مولانا قاضی عبدالرشید نے اپنے دلنشیں انداز میں مدارس کے کردار و خدمات پر روشنی ڈالی ،طوطی کشمیر مولانا سعید یوسف نے بڑے ہی فکر انگیز انداز سے دینی مدارس کی ضرورت واہمیت اور اس خطے میں اہل حق کی خدمات پر گفتگوکی ،مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی اول تا آخر پروگرام کی رونق دوبالا کرتے رہے ،مولانا انوار الحق اور مولانا حسین احمد نے ان کے سینکڑوں تلامذہ کے کلیجے ٹھنڈے کیے ۔مولانا زبیر اشرف عثمانی ،مولانا عمار خالد ،مولانا احمد حنیف ، مولانا سلمان الحق اور مولانا حمزہ سعید جیسے صاحبزادگان بھی شریک بزم رہے۔شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ،مولانامفتی مٖحمد رفیع عثمانی ،مولاناانوار الحق ،مولاناقاضی عبدالرشید ، مولاناپیر عزیز الرحمان ہزاروی اور مولاناحسین احمد جیسے اکا بر کی تشریف آوری نے سوات کے اربابِ مدارس اور اہل حق کا سیروں خون بڑھ گیا،ان کا مورال آسمانوں سے باتیں کر رہا تھا ، ان کے تمتماے چہرے بتارہے تھے کہ آج اہلِ سوات کی حقیقی عیدہے ،
المختصر یہ کہ کوئی کوئی پروگرام لطف دیتاہے ،کبھی کبھی ایسی خوشی ہوتی ہے، گاہے گاہے ہی ایسی کیفیات نصیب ہوتی ہیں جیسی سوات کے استحکا مِ مدارس کنونشن میں نصیب ہوئی ۔اللہ کرے سوات کے ظاہری حسن سے زیادہ وہاں دین کی بہاریں یوں ہی سدامسکراتی رہیں