کیا یہ معرکہء حق و باطل ہونے والا ہے جس کی جانب پوری مسلم امت دو واضح گروہوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک جانب چونتیس ملکوں کا اتحاد ہے جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے اور جسے پاکستان خوش آمدید کہہ چکا ہے اور دوسری جانب ایران، عراق اور شام۔ یہ دونوں گروہ واضح تو اب ہوئے ہیں لیکن ایک دوسرے کو قتل کرنے، شہروں کو برباد کرنے اور ظلم و تشدد روا رکھنے کا سلسلہ تو گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ اس معرکے کو دونوں گروہ حق و باطل کا معرکہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
علاقائی بالادستی کی اس جنگ کے شعلوں کو مسلکی نعروں سے جس طرح ہوا دی جا رہی ہے اس سے یہ معرکہ پوری دنیا میں پھیلتا نظر آ رہا ہے۔ یوں تو اس آگ کی تپش مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ہی سہہ رہے ہیں لیکن فرقہ واریت کے اس طوفان کی افغانستان اور پاکستان میں بھی آنچ اب پہنچنے لگ گئی ہے۔ بلند و بالا مقدس نعروں کی گونج ہے، جس میں لوگوں کو جہاد کا راستہ دکھا کر ایک ایسے میدانِ جنگ میں اتارا جا رہا ہے جہاں صرف اور صرف مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔
افغانستان اور پاکستان میں طویل عرصے سے القاعدہ اپنے محاذوں کے لیے نوجوانوں کو ترغیب دیتی تھی اور کتنے افراد اس کے ہمراہ افغانستان میں لڑنے بھی نکل گئے تھے۔ لیکن القاعدہ کی لڑائی تو روس یا امریکا کے خلاف تھی جہاں اس میں حصہ لینے والوں کو کم از کم یہ تسلی رہتی کہ وہ کافروں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
اسی طرح افغانستان اور عراق میں لڑنے والے مجاہدین بھی کم از کم اخلاقی طور پر یہ جواز ضرور رکھتے تھے کہ کہ ان کے ملک پر غیر ملکی افواج نے حملہ کیا ہے اور لبرل سیکولر اخلاقیات کے نزدیک بھی ان غیرملکی افواج سے لڑنا جائز بنتا ہے جب کہ اسلام کے حوالے سے تو ہزار ہا دلیلیں روس اور امریکا سے لڑائی کے حق میں دی جا سکتی تھیں جو لوگوں کو لڑنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دلیلوں نے وہاں مستقل جنگیں لڑیں۔ لیکن موجودہ عراق و شام میں جاری لڑائی میں کونسی ایسی دلیل ہے جو باقی تمام ممالک خصوصاً افغانستان اور پاکستان سے لوگوں کو وہاں جانے پر مجبور کر رہی ہے۔
یہ دلیل بہت خوفناک ہے اور اس دلیل کو پیش کرنے والے یہی دو گروہ ہیں۔ امت کو اس بنیاد پر تقسیم کرنے کا کام گزشتہ ربع صدی میں بہت تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ اس لیے کہ جب روس افغانستان میں داخل ہوا تو شیعہ سنی دونوں اس کے خلاف لڑنے کے لیے متحد تھے۔ اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے وفد کے تمام ممبران کی جگہ افغان مجاہدین کو بٹھایا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
یہاں تک کہ طالبان کے زمانے میں بھی انکی شیعوں پر مشتمل ایک ڈویژن تھی جو سنی طالبان کے ساتھ شانہ بشانہ مخالفین سے لڑتی تھی۔ بلکہ طالبان کی انفنٹری ڈویژن کا سربراہ ایک بدخشانی فارسی خوان تھا جو پشتون اکثریتی صوبے کا گورنر بھی تھا اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا۔ عالمی استعماری مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ایسا اتحاد کس کو گوارا تھا۔ اسی لیے گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد جب افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے ان ممالک پر قبضہ کیا گیا تو سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ کیسے مسلمانوں میں شیعہ اور سنّی کی اس خلیج کو گہرا کیا جائے۔
چودہ سو سال کا تجربہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ خلیج اس وقت تک گہری نہیں ہو سکتی جب تک اسے علاقائی بالا دستی اور علاقائی تہذیب و ثقافت کے نعروں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔
اسی لیے ہمیشہ عرب و عجم کے قدیم جھگڑے کو مسالک کا تڑکا دے کر ابھارا گیا۔ اس لیے کہ اگر صرف عرب اور ایران کا جھگڑا ہی رہتا تو یہ دونوں ممالک یا فارسی اور عربی زبان بولنے والے گروہ ہی آپس میں لڑتے۔ لیکن اگر ایک مسلک یعنی شیعہ کا نمایندہ ایران کو بنا دیا جائے اور دوسرے مسلک کی سرپرستی عرب ممالک کرنے لگیں تو پھر عربی، اردو، پنجابی اور پشتو بولنے والا شیعہ ایران کے ساتھ اور فارسی بولنے والا ایرانی، تاجک، ازبک سنّی عرب ممالک کے ساتھ خودبخود کھڑا ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقائی بالادستی کی اس جنگ کو دونوں گروہ ارفع اور اعلیٰ جہاد بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
اس لڑائی میں امریکی اور مغربی طاقتوں کی ایک منصوبہ بندی شامل تھی۔ القاعدہ اور دیگر گروہوں کے حوالے سے دنیا بھر سے مسلمان اس خطے میں لڑائی لڑنے کے لیے پہلے ہی سے پہنچے ہوئے تھے۔ عراق پر جب امریکا نے قبضہ کر لیا، اپنی مرضی کا آئین تحریر کر کے، اپنی مرضی کے الیکشن کروائے تو ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے کے بجائے اس نے حکومت قائم کی جو شیعہ سنّی اختلاف کو ابھارے۔
2006ء سے لے کر 2008ء تک سنی اکثریتی علاقوں میں ایک جنگ شروع ہوئی جسے القاعدہ کا نام دے کر عام آبادی کا شدت کے ساتھ ایسا قتلِ عام کیا گیا کہ شہر کے شہر ویران ہو گئے۔
اس قتل و غارت نے شیعہ سنی خلیج کو عراق میں بہت واضح کر دیا۔ آپ صرف اس بات سے اندازہ لگائیں کہ 2003ء سے 2005ء تک عراق جنگ میں مرنے والوں کی تعداد پہلے سال 8 ہزار، دوسرے سال 16 ہزار اور تیسرے سال 20 ہزار کے قریب تھی۔ لیکن جیسے ہی عراقی منتخب حکومت نے سنّی علاقوں میں القاعدہ کے نام پر ایکشن شروع کیا تو 2006ء میں 35 ہزار، 2007ء میں 36 ہزار اور پھر 2008ء میں یہ مزاحمت دم توڑ گئی اور صرف 8 ہزار افراد قتل کیے گئے۔
لیکن اس مزاحمت کی کوکھ سے داعش نے جنم لیا اور اس کے چند ہزار سپاہی صرف انھی علاقوں میں کامیاب ہوئے جہاں گزشتہ سات سال سے عراقی حکومت یہ ظلم روا رکھے ہوئے تھی اور نفرت کی خلیج واضح ہو چکی تھی۔ عراق کی اس منتخب حکومت کے ساتھی شام اور ایران تھے۔ لیکن داعش سے بہت پہلے عرب ممالک نے مختلف سنّی تحریکوں کو شام میں جیش الاسلام، حرکت و احرار الشام اور جبتہ النصرہ کے نام پر منظم کیا اور بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا آغاز کرایا۔
دوسری جانب عراق کے سنّی گروہوں کو مالی اور دیگر امداد بھی عرب ممالک سے ملتی رہی۔ ایران جو امریکی حملے سے لے کر امریکیوں اور اس کی کاسہ لیس حکومت کا مددگار تھا، بلکہ بعد کی حکومت کا سرپرست بھی تھا، اس نے تصور کیا کہ اب وہ اگر میدان میں نہ کودا تو اس کی علاقائی بالا دستی ختم ہو جائے گی۔ یوں وہ جنگ جو چھپ کر لڑی جا رہی تھی اب واضح ہو گئی۔
داعش کے بعد دونوں گروہ کھل کر میدانِ عمل میں نکل آئے۔ دونوں علاقے میں اپنے پالتو گروہوں کا قبضہ چاہتے ہیں۔ دونوں داعش کے خلاف متحد ہیں لیکن داعش کو ختم کر کے عراق اور شام کے کھنڈرات پر اپنا اپنا جھنڈا لہرانے کے لیے میدانِ عمل میں کود چکے ہیں۔ ایک نے اس علاقائی بالا دستی کا پرچم امریکا کو تھما دیا ہے اور دوسرے نے علاقائی کنٹرول کا خواب روس کو دکھایا ہوا ہے۔
اگر ان دونوں گروہوں کی افواج آپس میں لڑ رہی ہوتیں تو شاید یہ خوفناک بات نہ ہوتی لیکن دونوں جانب سے مسلم امہ کے تمام ممالک میں مسلک کے نام پر گروہوں کو منّظم کیا جا رہا ہے اور بھرتیاں شروع ہیں۔ ان بھرتیوں کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان اور افغانستان کے شیعہ اور سنّی نوجوان ہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں ایران میں دو پاکستانیوں کے جنازے کی تصاویر ایران میں بہت عام ہوئیں جو شام میں مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں پارا چنار سے تعلق رکھتے تھے۔
وہ پاکستانی جو ایرانی پاسداران کے تحت ٹریننگ حاصل کرتے ہیں ان کے گروہ کا نام زینبیون ہے۔ جب کہ افغانستان سے بھرتی کیے جانے والوں کا نام لیواء فاطمیون ہے۔ افغانستان سے بھرتی کیے گئے افراد کی تعداد 15 ہزار کے قریب ہے جو بشار الاسد کے لیے لڑ رہے ہیں جن میں سے سات سو کے لگ بھگ حلب اور دیرہ میں مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان سے زینبیوں کے نام پر بھرتی کیے جانے والوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں سے 20 کے قریب جاں بحق ہو چکے ہیں۔
اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بسنے والے شیعہ مسلک کے افراد بھی اس پکار پر لبیک کہہ رہے ہیں جب کہ بھارت سے تیس ہزار لوگوں نے نجف اور کربلا میں لڑنے کے لیے اس وقت درخواستیں جمع کروائیں تھیں جب داعش کا آغاز ہوا تھا۔ دوسری جانب مغربی ممالک سے سنّی مسلمانوں کا داعش کے لیے آنے کا سلسلہ دھڑا دھڑ جاری ہے۔۔ تقریباً پانچ ہزار لوگ وہاں سے داعش کے لیے لڑنے پہنچے ہوئے ہیں۔
یعنی شام اور عراق میں ان دونوں گروہوں نے امتِ مسلمہ کا مسلک کی بنیاد پر خون بہانے کا سب سامان فراہم کر دیا ہے۔ سنّی گروہوں کو یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کو ختم کر کے وہاں سنّی اکثریت کی حکومت اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق قائم کرنا ہے۔ جب کہ شیعہ نوجوانوں کا المیہ عجیب ہے انھیں مزاراتِ مقدسہ کے تحفظ کے نام پر یہاں سے بھرتی کیا جاتا ہے اور وہ ایسے شہروں میں جا کر لڑ رہے ہیں جہاں کوئی مقدس مزار ہی نہیں ہے۔
زینبیوں کی بھرتی کی جانے والی ویب سائٹ اور فیس بک پر لکھا ہے “پاکستانی مجاہدین کی فوج جو صرف اور صرف دفاعِ حرم کے لیے لڑ رہے ہیں اور نہ بشار سے کوئی تعلق ہے اور نہ ایران سے”۔ یہ ہے وہ مسلک کا تڑکا جو علاقائی بالا دستی کی جنگ کو لگا کر امت میں فساد کا بیج بویا جا رہا ہے۔
صرف ایک سوال دونوں کے لیے چھوڑے جا رہا ہوں۔ کیا بشار الاسد کی حکومت بچ گئی تو سیکولر بشارالاسد فقہ جعفریہ کے مطابق اسلامی نظام نافذ کر دے گا، یا اگر سنّی گروہوں کی اکثریت جیت گئی تو وہ اسلام کے درخشاں اصولوں پر حکومت قائم کریں گے ہر گز نہیں، وہ جو صرف مسلک کے اختلاف پر گردنیں کاٹتے ہوں وہ اس امت کو کبھی امن نہیں دے سکتے۔ ایران ہو یا عرب ممالک۔