ویسے جو کام ہم کرتے ہیں اس کیلئے یا تو بڑے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے یا بیوقوفی کی۔ سیانے کہتے ہیں بیوقوف اور بہادر میں فرق صرف حروف کی حد تک ہے ورنہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عرصہ ہوا بھارت کے مشہور ایتھلیٹ مِلکھا سنگھ کا ایک ویڈیو کلپ دیکھاتھا۔ مِلکھا سنگھ ہمارے سرائیکی علاقے کوٹ ادو سے تھا۔ نوے برس کی عمر میں ابھی کچھ ہفتے پہلے ہی کووڈ سے ان کا انتقال ہوا ہے۔ وہ بھارت کے تیز ترین ایتھلیٹ تھے اور انہوں نے کئی عالمی مقابلے جیتے۔ انڈیا میں بننے والی فلم‘ جس میں فرحان اختر نے مِلکھا سنگھ کا کردار ادا کیا‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خیر ایک کلپ میں مِلکھا سنگھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ان کی دراز عمری کے دو تین راز ہیں۔ صحت برقرار رکھنے کیلئے وہ روزانہ کئی کلومیٹر دوڑتے یا جاگنگ کرتے ہیں۔ وہ دوائیاں لینے سے گریز کرتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنی زبان پر قابو رکھتے ہیں۔ اس نکتے پر میں رک گیا کیونکہ مجھے لگا شاید مِلکھا سنگھ وہ بات میرے جیسے Mavericks کے بارے کہہ رہے ہیں کیونکہ شاید ہمیں بھی اپنی زبان پر قابو نہیں۔
ملکھا سنگھ کی یہ بات اس وقت ہم پاکستانیوں پر پوری اترتی ہے کہ بندے کو اچھی صحت اور اچھی زندگی کیلئے کم بولنا چاہئے۔ یہ بات صرف انسانوں پر نہیں شاید ریاستوں اور ملکوں پر بھی پوری اترتی ہے۔امریکہ سب سے زیادہ بڑ ھکیں مارتا تھا اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ سب دیکھ رہے ہیں۔دوسری طرف چین کو دیکھ لیں کہ اس وقت وہ ایک سپرپاور ہے لیکن آپ نے بہت کم ہی اس کے لیڈروں کو بڑ ھکیں مارتے سنا ہو گا۔ویسے سنا تھا کرکٹر سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ well-leftکا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے ڈاکٹر ظفر الطاف سے پوچھا تھا کہ سر آپ اکثر ویل لیفٹ کا استعمال کرتے ہیں‘ اس کا کیا مطلب یا مقصد ہوتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب خود کرکٹر رہے تھے‘ سنجیدہ ہو کر بولے: یہ کرکٹ کی ایک ٹرم ہے‘ بعض دفعہ فاسٹ باؤلر اتنی خوبصورت ڈلیوری کرتا ہے کہ وہ آپ کو آئوٹ کرسکتی ہے۔ہر بال کھیلنے والی نہیں ہوتی۔ اگر کھیل گئے تو سیدھے آئوٹ ہوں گے‘ لہٰذا ایک اچھا بیٹسمین جانتا ہے کہ اس بال کو نہ کھیلنے میں ہی بھلائی ہے اور وہ بڑی سمجھداری سے اس بال کو ہٹ کرنے کے بجائے وکٹ کیپر کو جانے دیتا ہے۔ جہاں ہم فاسٹ باؤلر کی بال کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں وہیں بیٹسمین کی سمجھداری کو بھی سراہتے ہیں کہ اس نے ویل لیفٹ کیا۔سوال یہ ہے عمران خان صاحب سے بہتر ویل لیفٹ ٹرم کو کون سمجھتاہوگا۔ تو پھر عالمی یا مقامی سیاست میں بعض دفعہ وہ اس پر کیوں عمل نہیں کرتے؟
سب کو پتہ تھا کہ افغانستان میں جو عالمی افواج کا حشر ہوا اور جن حالات میں امریکن فورسز کو وہاں سے نکلنا پڑ رہا تھا وہ اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہوگا۔ بڑی طاقتوں کی اَنا بھی بڑی ہوتی ہے۔ اپنی شکست کوئی قبول نہیں کرتا۔ اس لیے امریکہ کو افغانستان سے جن حالات میں جانا پڑا اس نے پوری دنیا کو حیران کیا‘ خود امریکہ میں ایک جارحانہ بحث چھڑ گئی کہ اس ذلت کا ذمہ دار کون تھا؟ سب کی انگلیاں پاکستان کی طرف اٹھیں۔ اس وقت جب امریکہ اپنے زخم چاٹ رہا تھا تو ہمارے حکمرانوں نے شادیانے بجانے شروع کر دیے کہ یہ سب ہمارا کیا دھرا تھا۔ ملک کے وزیراعظم نے اس معاملے میں پہل کی اور بہت سی تقریریں کیں جنہیں یقینا پاکستانی عوام میں سراہا گیا۔ عوام جذباتی ہوتے ہیں‘ لیڈرشپ کو نہیں ہونا چاہئے‘ مگر خان صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ افغانستان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے بیس سال سے بقول عمران خان افغانوں کو غلامی میں جکڑا ہوا تھا ان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی پیش پیش تھے۔کہا گیا کہ دونوں پاکستان کی مدد سے افغانستان کے صدر بنے بلکہ پاکستان پر الزام لگتا رہا کہ ہم انہیں سچے جھوٹے الیکشن میں جتواتے رہے۔ ان دونوں کو ہر دفعہ پاکستان بلا کر گارڈ آف آنر دیے گئے۔ پاکستانی حکمران بشمول خان صاحب اور ان سے پہلے کے وزرائے اعظم کے بھی باقاعدہ کابل کے دورے پر جاتے رہے۔ ہمارے سب فوجی سربراہان بھی کابل کے دورے کرتے رہے بلکہ پاکستان نے تو یہ پیشکش کی تھی کہ ہم افغانستان کی افواج کوٹر یننگ دینے کو تیار ہیں۔
اب اچانک ہم نے اپنی سائیڈ بدل لی۔ اگر پوری دنیا کو کوئی شک تھا تو ہم نے اسے یقین میں بدل دیا کہ طالبان کے گاڈ فادر ہم ہی ہیں۔ وزیرداخلہ شیخ رشید نے سوچا وہ کیوں پیچھے رہیں انہوں نے سلیم صافی کے پروگرام میں بیان داغا کہ طالبان کے خاندان اسلام آباد کے نواح‘ بارہ کہو میں رہتے ہیں۔ کوئٹہ شوریٰ تو پہلے ورلڈ فیمس تھی رہی سہی کسر ڈی جی آئی ایس آئی کی کابل میں چائے کا کپ پیتے تصویر نے پوری کر دی۔
اب افغان طالبان کے ہم ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اچھے برے اقدامات کا دفاع کرنا ہمارا قومی فریضہ بن چکا ہے۔ حکمرانوں کو دیکھ کر میڈیا‘ اینکرز اور دانشور بھی اس کام پر لگے ہوئے ہیں۔پاکستان کے خلاف امریکہ میں لابی ایکٹو ہے۔ یقینا اس نے امریکن سینیٹرز کے ساتھ مل کر اب ایک بل وہاں پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے جس میں پاکستان کے خلاف انکوائری اور اس پر پابندیاں لگانے کا کہا گیا ہے۔
امریکیوں کو داد دیں کہ قطر میں طالبان کا دفتر بھی کھلوایا‘ پاکستان کو کہہ کر طالبان لیڈرز چھڑا کر قطر لے گئے جن سے مذاکرات کر کے معاہدہ بھی کیا۔ اب کہہ رہے ہیں یہ سب کیا دھرا پاکستان کا تھا۔ہوسکتا ہے ہماری قوم کہے کہ ہم کسی پابندی سے نہیں ڈرتے۔ کہنا بڑا آسان ہے۔ ایک FATF نے ہمیں اپنے گھٹنوں پر لاکھڑا کیا ہے۔ ڈالر اس وقت آسمان کو چھو رہا ہے‘ پٹرول‘ گیس اور بجلی کی قیمتوں نے لوگوں کا حشر کر دیا ہے۔ مہنگائی نے چیخیں نکال دی ہیں۔ اس وقت گندم‘ چینی‘ آٹا‘ دالیں سب کچھ امپورٹ ہورہا ہے اور سنا ہے سب افغانستان جارہا ہے۔ ہم اپنے کمائے ہوئے ڈالر خرچ کر کے یہ سب منگوا کر افغانستان بھجوا رہے ہیں۔ ہم اپنا روپیہ گرا کر ایکسپورٹ سے اتنے ڈالرز نہیں کما رہے جتنے اس وقت گندم اور چینی کی بیرون ملک سے خریداری پر ہر ماہ خرچ ہورہے ہیں اور سب افغانستان کیلئے ہورہا ہے۔ ابھی یہ شروعات ہے۔ اب ہم جو کمائیں گے وہ افغانستان کی خوراک پوری کرنے کے لیے باہر سے ڈالروں میں خریدیں گے۔ ڈالر کی شارٹیج بڑھتی جائے گی‘ روپیہ گرتا رہے گا۔ پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے ہم مسلسل گیس‘ بجلی اور پٹرول ڈیزل کی قیمتیں بڑھاتے رہیں گے اور قوم اس میں خوش رہے گی کہ امریکہ کو شکست ہوگئی۔ہمارے حکمران امریکہ کی شکست کا کریڈٹ لیتے رہیں گے حالانکہ کچھ مواقع ہوتے ہیں کہ چپ رہنا بہتر ہوتا ہے۔ ویل لیفٹ ہی درست آپشن ہوتا ہے‘ لیکن کیا کریں ہم‘ اس خطے کے لوگ جب تک بڑھک نہ مار لیں ہمیں نیند نہیں آتی۔آخر مظہر شاہ ایسے ہی تو پنجابی فلموں میں مشہور نہیں تھے۔ مظہر شاہ کی بڑھک کے بغیر کوئی فلم ہٹ نہیں ہوتی تھی۔ اب مظہر شاہ کی جگہ ہمارے نئے سیاسی اداکاروں نے لی ہے جن کی بڑھکوں کی گونج اب امریکی کانگریس تک سنی جارہی ہے‘ جہاں سنا ہے ہمیں کسنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔
بشکریہ دنیا