18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ نے عربی زبان کو اپنی رسمی زبانوں میں شامل کیا۔اس سے پہلے انگریزی ،ہسپانوی،روسی،چینی ،فرانسیسی اور جرمن زبانوں کو عالمی زبان کی حیثیت دے دی گئی تھی، اکتوبرء2012 میں یونیسکو نے 18 دسمبر کو عربی کا عالمی دن قرار دیا اور گذشتہ تین سال سے اس دن کو اہتمام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں عربی کی ترویج و اشاعت کے لیے مدارس دینیہ (جنہیں مدارس عربیہ بھی کہا جاتا ہے) کا کردار کسی سے مخفی نہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ محدود وسائل کی وجہ سے یہ عوام پر اس کا خاطر خواہ اثر نظر نہیں آتا،عوام الناس کو عربی سے روشناس کروانے کے لیے تمام تعلیمی اداروں کو اپنی کوششیں بڑھانی ہوں گی(1) حکومت پر بھی یہ دباؤ ڈالنا ہو گا کہ عربی کو دوبارہ لازمی مضمون کی حیثیت دی جائے،ہماری حکومت نے جہاں دیگر امور میں ترکی کو رول ماڈل قرار دیا ہے وہاں اس معاملے میں بھی ترکی سے سبق سیکھنا چاہیے کہ حال ہی میں اردوان حکومت نےنے عربی کو 90 سال بعد دوبارہ نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کا اطلاق 2016 کے تعلیمی سال سے ہو گا ۔
(2) اس کے ساتھ ساتھ عملی کوشش بھی جاری رکھی جائیں اور اس کے لیے مکاتب سے فائدہ اٹھایا جائے، اور شام کے اوقات میں ناظرہ پڑہنے کے لیے آنے والے بچوں کو صرف حروف کی پہچان کروانے کی بجائے ان کے معانی بھی بتائے جائیں، آپ اگر اردو انگریزی یا کوئی بھی زبان سیکھنے کے لیے ابتدائی کتاب اٹھائیں گے تو آپ کومفردات کے ساتھ تصویر یا اس کا دوسری زبان میں معنی ضرور ملے گا تاکہ قاری جو لفظ پڑھے اس کو سمجھ بھی سکے لیکن عربی وہ واحد زبان ہے جس کو سکھانے کا اتنا بھونڈا انداز ہے کہ آپ کو صرف الفاظ تک محدود رکھا جائے گا اور پھر الفاظ بھی وہ جو مہمل اوربے معنی ہوں،یہ واحد فیلڈ ہے جس پر اہل مکاتب کسی اور کو ذمہ دار بھی نہیں ٹھہرا سکتے کیوں کہ وہ نصاب سازی میں خودمختار ہیں اور حکومت کی کسی قسم کی مداخلت قبول نہیں کرتے۔
(3) عربی کے مشکل ہونے کا تاثر پیدا ہونے کی وجہ بھی ہمارے تعلیمی اداروں کا طرز تعلیم ہے،اگر ایک شخص محض قرآن فہمی کے لیے عربی سیکھنا چاہ رہا ہے تو ہم کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ پی ایچ ڈی کی سطح کی عربی سیکھے بغیر قرآن نہیں سمجھ سکتا؟ دعوتی اور تبلیغی تحریکیں بڑی محنت سے قرآن کو سمجھنے کا شعور اجاگر کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے جب کوئی اس طرف عملی قدم اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے روز اول میں ہی گردانوں کا ایسا طویل پرچہ تھما دیا جاتا ہے کہ جسے دیکھتے ہی عام آدمی یہ باور کر لیتا ہے کہ یہ میرے بس کا روگ نہیں اور دوبارہ کبھی اس طرف رخ نہیں کرتا، اگر کوئی ہمت کر کے یہ مرحلہ عبور کر لیتا ہے تو جملوں کی ترکیب میں ایسا الجھا دیا جاتا ہے کہ زبان سیکھنے کا اصل مقصد ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ عربی کے نصاب کو عام فہم بنایا جائے،میری نظر میں عربی کی تعلیم کا موجودہ نصاب کا بیشتر حصہ عربی لغویات میں تخصص سے تعلق رکھتا ہے،ابتدائی درجہ کے لیے نصاب نہ ہونے کے برابر ہے،اسی کمی کے پیش نظرمرکز دراسات عربیہ نے اقرا اوسس کے اشتراک سے عوام الناس اور مبتدی طلباء کے لیے عام فہم عربی کی نصاب سازی پر کام شروع کر دیا ہے۔
(4)دہشت گردی کے خلاف 34بننے والاممالک کا اتحادجس میں اکثریت عرب ممالک کی ہے ،کیا ہی اچھا ہو کہ آج کے دن کی مناسبت سے پاکستان اس اتحاد میں شامل ہوتے وقت عربی کو رابطے کی زبان قرار دینے کا مطالبہ کر دے اگر یہ 34 ممالک اس تجویز پر عمل کرلیں تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہو گا اور پاکستان میں فروغ عربی پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔
(5) عربی کی طرف رجحان کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے جدید علوم کا بیشتر خزانہ انگریزی یا دیگر عالمی زبانوں میں ہے جس سے استفادہ کرنے کے لیے پوری متمدن دنیا وہ زبانیں سیکھتی ہے اور پھر اس علمی ذخیرے کو اپنی قومی زبانوں میں ترجمہ کی صورت میں منتقل کر دیتی ہے لیکن بدقسمتی سے عربی زبان بولنے والے اول تو اس ذخیرے تک رسائی کی ذحمت ہی نہیں کرتے،یا کم ازکم ان علوم کو عربی میں منتقل کرنے کی بالکل سعی نہیں کرتے جوکہ عربی سے دوری پر منتج ہوتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ عربی ترجمہ پر بھی توجہ دی جائے اور اردو انگریزی اور دیگر زبانوں میں موجود علمی ذخیرے کو عربی میں منتقل کیا جائے.
(6)عربی کی ترویج کے لیے مذکورہ بلاواسطہ اقدامات کے ساتھ ساتھ بالواسطہ اقدامات بھی ضروری ہیں،وہ یہ کہ اسلامی ممالک بالعموم اور عرب ممالک بالخصوص سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید علوم میں ترقی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کریں اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کر دیں،کیونکہ زبان کے حوالے سے قدرت کا قانون ہے کہ غالب اور ترقی یافتہ قوم کی زبان بھی تمام زبانوں پر غلبہ اختیار کرلیتی ہے،یہ نہیں ہو سکتا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم سب سے پیچھے ہوں اور یہ خواہش رکھیں کہ ہماری قومی یا دینی زبان پوری دنیا پر اثرانداز ہو، زبان کی حیثیت کمیونیکیشن کے ذریعہ کی ہے،لہذا جو قوم مواصلات اور اتصالات کے وسائل میں ترقی یافتہ ہو گی اسی کی زبان بھی خود بخود ترقی یافتہ ہوتی چلی جائے گی،اس کے لیے کسی تحریک کی ضرور ت ہی نہیں رہے گی، یہی وجہ ہے کہ اس سال اس دن کو منانے کے لیے تقریبات کا عنوان” اللغۃ العربیۃ والعلوم” یعنی” عربی زبان اور سائنس” رکھا گیا ہے، امید ہے کہ اس عنوان کے تحت ہونے والے پروگرام عربی کے فروغ کے لیے راہ متعین کریں گے اور عربی سے محبت رکھنے والےآئی ٹی میں مہارت حاصل کر کے اس کی تیم ک کو اور بھی آسان بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔