’’28دسمبر1973ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد نمبر3190کے مطابق ہر سال 18 دسمبر کی تاریخ بطور ـ’’ انٹرنیشنل أربک لینگویج ڈے ‘‘ منانے کا اعلان ہوا، عرب دنیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی جامعات ،سفارت خانوں،قونصل خانوں ،بین الاقوامی لیول کی سماجی تنظیموں ،عرب لیگ ،اوآئی سی ،خلیج تعاون کونسل ، رابطۃ العالم الاسلامی ،رابطۃ الأدب الاسلامی العالمیۃ ،المجلس الدولی للغۃ العربیۃ ،المجلس العالمی لعلماء المسلمین اور UN کی طرف سے عالمی سطح پر اپنے اپنے انداز میں یہ دن منایاجاتاہے۔
اقوام متحدہ میں تحریر وتقریر کیلئے منظور شدہ زبانیں پانچ ہیں :عربی ، انگریزی ،چینی ،روسی ،اور فرانسیسی ۔گویا مذکورہ بولیاں عالم گیریت کے اس دور میں کسی قوم ،منطقہ اور مذہب کے لئے مختص نہیں ر ہیں ،بلکہ ساری انسانیت ان میں برابر کی شریک ہیں ، اب چونکہ دنیا ایک گلو بل ویلج کی صورت اختیار کر گئی ہے،اقوام متحدہ اور عالمی لیبل کی حامل تمام اداروں ،تنظیموں اوراتحادوں کافرض بنتاہے کہ کرّہ ٔارض کے امن وسلامتی اورتعمیر وترقی کیلئے انسانیت کے عنوان تلے ان زبانوں کی ترویج وتعلیم کے انتظامات کرے ،تاکہ بنی نوع بشری ،نظریات ،افکار اور عقائد کے ساتھ ساتھ علم وادب ،تہذیب وتمدن اور صحافت وثقافت کے میدانوں میں ایک دوسرے سے بھر پور استفادہ کر سکے اور ایٹمی ٹیکنالوجی سے مسلح آج کی دنیا جنگ وجدل ، اور تخریب وفسادسے دُور انسانیت کے ناطے سے محبت والفت، افہام وتفہیم ،دلیل ومنطق اور گفت و شنید سے اپنے معاملات حل کرکے اس چمنستان ِرنگ وبو کو أمن وآشتی کا گہوارہ بنا ئے ۔
عبرانی اور سریانی زبانوں کے انحطاط کے دور میں یہودیت اور عیسائیت کی بنیادی تعلیمات بطور خاص مشرقی کلیساؤں کے معتقدات عربی ہی میں رہیں ،المجلس الیھودی الامریکی (american jewish committee ) کی تمام تر دینی قوانین وعقائد حاخام موسی بن میمون القرطبی کی تحریر کردہ عربی ہی میں ہیں ،موجودہ انگریزی بائبل کے قدیم تر اور مارکیٹ میں متوافرنسخے بھی اصلاًعربی کے ہیں ۔
اسلام کی توبنیادہی عربی پرہے ،تمام تر اسلامی علوم وفنون ،عقائد وتاریخ کی امہات الکتب اور اصل مراجع کا تعلق عربی ہی سے ہے،عربی زبان وادب کی اہمیت وضرورت تو ظاہر ہے ، قرآن حکیم عربی زبان میں ہے ، نماز کے تمام ارکان از اول تا آخر عربی میں ہیں ،عیدین و جمعہ کے خطبے عربی زبان میں ہیں ، احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ عربی میں ہے ، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی نسبا ًولغۃً عربی ہے ،عام اسلامی دعائیں ،اذکاراور درود شریف سب عربی زبان میں ہیں ،اﷲ تعالی کے پیارے ننانوے مبارک نام عربی میں ہیں ، حجاز مقدس ،مکہ، مدینہ، لبنان ، شام ،مصر ،طرابلس ، الجزائر ، تیونس ، مراکش ، بحرین ، کویت ، وغیرہ چھوٹے بڑے کئی ممالک کی زبان عربی ہے، ان سے تعلقات قائم رکھنے کے لئے عربی زبان کی شدید ضرورت ہے ،ان ممالک میں جو عربی لٹریچر دینی ،تیکنیکی ، اقتصادی اور سیاسی حوالوں سے ہزاروں کتب، رسائل واخبارات سمعی بصری اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع ہورہے ہیں ان کا تو ٹھکانہ ہی کیا۔
ان ممالک کو معلموں ،انجنیئروں،ڈاکٹروں اور زندگی کے دیگر مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی ضرورت وحاجت ہے ،ان ممالک میں تجارت کے ذرائع پیدا کرنے، کارخانے قائم کرنے ،اپنے ملکی اور ملی و سیاسی مقاصد ومفادات کی وہاں اشاعت کے لئے عربی زبان کی شناسائی نہایت ضروری ہے ،
امام شافعی کے مذہب میں تو کچھ نہ کچھ عربی سیکھنا فرض عین کا درجہ رکھتا ہے ، ا مام ابو حنیفہ ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل ، علامہ ابن قیم اور حافظ ابن تیمیہ جیسے اساطین علم وفضل کے نزدیک بھی عربی سیکھنا فرض کفایہ ہے ۔
ادبی اعتبار سے بھی عربی زبان کی صفات و خصوصیات بے حد لطیف اور تفصیل طلب ہیں ،کاش روز اول ہی سے ہمارے ملک میں یونیورسٹیز ، کالجز ، سکولز اور بالخصوص دینی مدارس وجامعات کے ارباب انتظام واختیار اس کے مقام اور مرتبے کو محسوس کرتے ہوئے اس طرف توجہ دیتے ، توعالم اسلام اور عالم عرب کے اتحاداور قرآن و حدیث کی تعلیمات کو باحسن وجوہ سمجھنے کے لئے یہ زبان ایک موثر ذریعہ ثابت ہوسکتی تھی،اب بھی اگر ہمارے حکمراں دین کے لئے نہ سہی اپنے سیاسی اور دنیاوی مقاصد کے لئے اس زبان پر توجہ دیں تو عالم اسلام میں پاکستان کی حیثیت کچھ اوربڑھ کر ہو۔
1973ء کے آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عربی زبان کی ترویج واشاعت کی طرف توجہ دے ،آئین کے باب دوم کے آرٹیکل نمبر 31شق 2 میں مذکور ہے ـ:
(2)The State shall endeavor,as respects the muslims of pakistan (a) to make teaching of Holy Quraan and islamiat compulsory,to encourage and facilitate the learning of Arabic language and secure corrct and exat printing and publishing of the Holy Quraan.
(b) to promote unity and the observance of the Islamic morl standards;and (c) to sucure the proper organization of Zakat,Ushr auqaf and mosques.”
یعنی ملک میں ایسے اقدامات اٹھا ئے جائیں گے ، جن کی وجہ سے مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلام کے بنیادی عقائد کے مطابق گزار سکیں ،ملک میں قرآن کریم اور اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دی جائے گی ، نیز عربی زبان کی تعلیم و ترویج کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ، اورمملکت قرآن کریم کی طباعت و اشاعت کا بندوبست کرے گی ــــــ․․․․․․․․․مذکورہ اقتباس سے عربی زبان کے فروغ اور نشر اشاعت کے متعلق ہمارے ملک کے آیئنی ودستوری فریضے کی طرف واضح اشارہ ملتا ہے ۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سےکم سے کم میٹرک میں عربی کا جو اختیاری مضمون ہے اسے سرِدست اگر لازمی مضمون قرار دیاجائے تو اس سے بھی یک گونہ آگے کی طرف پیش قدمی کہا جاسکے گا، اللہ تعالیٰ متعلقہ ذمہ داروں کو اس کی توفیق نصیب فرمائے۔