پاکستان کے دو بڑے قومی اخبارات نے آج اپنے پہلے صفحے پرایک نجی موبائل کمیونیکیشن کمپنی کا اشتہار شائع کیا ہے جس پر سوشل میں بڑے پیمانے پر بحث جاری ہے ۔اشتہار میں ایک ماڈل کو سرخ لباس میں پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ماڈل کے ہاتھ میں سیل فون بھی نظر آ رہا ہے ۔
سینئر صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر فاروق فیصل خان نے اپنے فیس بک پیچ پر مذکورہ اشتہار کی تصویر لگا کر دعویٰ کیا ہے کہ ”ایک اخبار نے اپنے فرنٹ پیج پر یہ اشتہار شائع کرنے کے عوض 50 ملین روپے جبکہ دوسرے قومی اخبار نے 35 ملین روپے وصول کیے ہیں۔”
انہوں نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ان اخبارات کے مالکان کو مذکورہ رقم سے دگنی ادا کی جائے تو ممکن ہے یہ لوگ اپنی گھریلو خواتین کی تصاویر بھی اس انداز میں شائع کر دیں گے ۔ یہ لوگ پیسے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں”
دوسری جانب نجی نیوزچینل سے وابستہ سینئرصحافی فیض اللہ خان نے طنزیہ انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ”موبی لنک کے اشتہار میں خاتون کی تصویر پہ سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ، موبی لنک کو کام کرنے کی سہولت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین نے دی ھے اسی آئین و قانون کے مطابق ماڈلنگ کی اجازت ھے اسی کے تحت اخبارات و نشریاتی ادارے چل رھے ہیں اسلامی ملک کے سنسر بورڈ نے اس اشتہار کو” اوکے ” کیا ہوگا اور اگر اسمیں کوئی ایسی ” قباحت” ہوتی تو وہ پاس ہی نا کرتے { ہمیں اپنے حکمرانوں کی نیت پہ شک نہیں کرنا چاھئِے وہ دل میں متقی ہیں سلوک کی منازل طے کرچکے ہیں بس ہمیں سمجھ نہیں ھے }
، یہی وجہ ھے کہ ہمارے ڈراموں اور اشتہارات میں خواتین کے بیڈ رومز کے مناظر دکھائے جاتے ہیں اب موبی لنک کی مرضی اپنی سم خواتین کو لٹا کر بیچے یا بھگا کر ۔۔۔۔ تو اور میں کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے ؟؟؟”
مذکورہ اشتہار کی ویڈیو جب موبائل کمپنی کے آفیشل پیج پر اپ لوڈ کی گئی تو لوگوں نے بڑی تعداد میں تبصرے شروع کر دیے ہیں ۔ سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ٹی وی چینلز نے اپنے ڈراموں اور پروگراموں میں ایک عرصے سے ایسا مواد نشر کرنا شروع کررکھا ہے جسے کوئی بھی شریف شہری اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔
ایک اور فیس بک صارف بشارت صدیقی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ”کیا ہم اخلاقی طور دیوالیہ ہو چکے ہیں
آج پاکستان کے صف اول کے دو اخبارات کے فرنٹ پیج پر یہ تصویر دیکھ کر حیرت ہوئی دل دکھی ہوا سوچا کہ یہ "مولوی محمد علی جناح” کا پاکستان ہے …اس تصویر کو پبلش کرنے کے لیے ایک اخبار نے پچاس ملین اور دوسرے نے پینتیس ملین کی خطیر رقم لی …خیر اس موقع پر مجهے اس امریکی وکیل کی یہ بات شدت سے یاد آئی جس نے کانسی کا کیس لڑا تها اور مشہور زمانہ یہ جملہ کہا تها کہ ” پاکستانی پیسوں کی خاطر اپنی ماں کو بهی بیچ دیتے ہیں ” لگے رہو منا بهائی
”ان اداروں سے تعلق رکھنے والے کچھ نامور صحافی ہمیں یونیورسٹی میں صحافتی اصول پڑھایا کرتے تهے
ایک خاتون شوشل میڈیا صارف نے ان الفاظ میں اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے ”عورت کا استحصال ..
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسے اشتہارات کی اجازت کہاں سے آئی. .
عوامی اخبارات جو نوجوانان قوم کی سوچ تعمیر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ان کا کردار کتنا مثبت ہے .. اس اخباری تصویر سے ظاہر ہے.
شیم شیم شیم
اخبارات اور مشتہر کنندہ ادارہ موبی لنک عوام سے معزرت کرے”
صحافی جمال عبداللہ عثمان کا کہنا ہے کہ”موبی لنک نے اشتہار دے دیا، سو دے دیا۔ اس کے خلاف آواز ضرور اُٹھائیں، لیکن ہر دو منٹ بعد اس اشتہار کو انتہائی گہرائی میں جاکر غور سے دیکھنا اور پھر ”استغفر اللہ“ پڑھنا اور بعدازاں اسے چند جملوں کے ساتھ شیئر کرنا ضروری تو نہیں بھائیو، خصوصاً میری بہنو!!!”
بعض لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”کمرشل ازم کو اخلاقیات کا پابند بنانا بنیادی انسانی آزادیوں کے خلاف ہے ۔” ان کا کہنا ہے کہ ”پوری دنیا میں کمپنیاں اپنی مصنوعات کی پروموشن کے لیے پرکشش اشتہارات کا سہارا لیتی ہیں اس لیے موبایل کمپنی کے اس اشتہار پر اعتراض تنگ نظری کے علاوہ کچھ نہیں ہے ”
واضح رہے کہ پاکستان میں یہ پہلا موقع ہے کہ اخبارات نے خواتین ماڈلز کی تصاویر اپنے اشتہارات میں اس اندازمیں شائع کی ہیں۔