پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ہے خدا کا رسول بس
میری اورمیرےقلم کی کیا اوقات کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرو،بس قارئین کوشش ہےمیرے لکھنے اور آپ کے پڑھنے سے اللہ تعالی یارغار یار مزارکا صدقہ ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔
اسلام کے پہلے خلیفہ راشد،عشرہ مبشرہ میں شامل،خاتم النبین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اولین جانشین،صحابی اورہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفرتھے۔ ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر،صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین حضرت عائشہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے محبوب ترتھے۔عموماً ان کےنام کےساتھ صدیق کالقب لگایا جاتا ہے۔جسے حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا۔
حضرت ابوبکرصدیق عام الفیل کے دو برس اورچھ ماہ بعد سنہ 573ءمیں مکہ میں پیدا ہوئے۔ دورجاہلیت میں ان کا شمار قریش کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔جب پیغمبر اسلام محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کےاسلام قبول کرلیا اور یوں وہ آزاد بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے کہلائے۔
قبول اسلام کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے جو سخت مصیبتوں اور تکلیفوں کا دورتھا۔ بعدازاں پیغمبراسلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت میں مکہ سے یثرب ہجرت کی،نیز غزوہ بدر اور دیگر تمام غزوات میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیمارہوئے،تو ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کریں۔ پیر 12 ربیع الاول سنہ 11ھ کو پیغمبر اسلام نے وفات پائی اوراسی دن حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے ہاتھوں پر مسلمانوں نے بیعت خلافت کی۔منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ابوبکر صدیق نے اسلامی عاملوں اور قاضیوں کو مقرر کیا،جابجا لشکر روانہ کیے،اسلام اوراس کے بعض فرائض سے انکار کرنے والے عرب قبائل سے جنگ کی،یہاں تک کہ تمام جزیرہ عرب اسلامی حکومت کامطیع ہو گیا۔فتنہ ارتداد فروہوجانے کے بعد امام ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے کے لیے لشکر روانہ کیا، ان کے عہد خلافت میں عراق کا بیشترحصہ اورشام کا بڑا علاقہ فتح ہوا۔
اعلان نبوت کے چوتھے سال جب علانیہ دعوت اسلام کا حکم نازل ہو تو رسول اللہ نے لوگوں کو علانیہ حق کی جانب بلانا شروع کر دیا۔اس پر مشرکین قریش بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر بے تحاشا ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے۔ بالخصوص اسلام قبول کرنے والے غلاموں اورلونڈیوں پرانہوں نے ایسے ایسے ظلم ڈھائےکہ انسانیت سر پیٹ کررہ گئی۔ظلم و ستم کے اس دور میں ابو بکر صدیق نے بےدریغ مال خرچ کرکےمتعدد مظلوم غلاموں اورلونڈیوں کوان کےسنگدل آقاؤں سےخریدکر اللہ کی رضاکی خاطرآزادکروایا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے دیرینہ دوست اورسفروحضرکےساتھی تھے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ تو سب سے پہلے آپ کو یہ شرف حاصل ہوا ۔ کہ آپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف مالی تعاون کیا۔بلکہ ہر مشکل وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون ومددگاررہے۔ ہجرت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔تمام غزوات میں آپ شریک ہوئے،اور یہ حقیقت ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیر اول تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بہت سے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر فی الجنۃ ( ترمذی )
” ابوبکر جنت میں ہیں ۔ “
حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا:
کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوگا جسے (جنت کے) ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا، یا رسول الله؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہوگے اے ابوبکر!”
(بخاری3666)
اور یہ بھی فرمان نبوی ہے :
” میری امت میں سے،میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے ۔ “
” حقوق صحبت کی ادائیگی اورمال خرچ کرنے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر بلاشبہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے ۔ ”
پھر ارشاد فرمایا :
ولو کنت متخذا اخلیلا غیر ربی لا تخذت ابابکر خلیلا (بخاری و مسلم )
” اگر میں اپنے رب کے سوا کسی اور کو خلیل بناتا،توابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بناتا ۔ “
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
انت صاحبی فی الغار وصاحبی علی الحوض ( بخاری )
” تم غار میں میرے رفیق تھے اور حوض کوثر پر میرے رفیق ہوگے۔ “
جامع ترمذی میں امام ترمذی نے اور تاریخ الخلفاءمیں امام سیوطی رحمہ اللہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم سب کےسردار اورہم سب سے بہتر،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سب سے زیادہ پیارے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 12ربیع الاول 11ھجری کووصال فرمایا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری دور میں جھوٹے نبی پیدا ہو چکے تھے۔لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرمایا تو کئی اور فرقے اسلام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔
ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت تھے ۔ ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا پیدا ہوا ۔ جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ۔ اور ساتھ ایک اورگروہ سامنے آیا۔ جنہوں نے دین اسلام سے انحراف کیا۔ یعنی مرتدین اسلام ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے یہ بڑا سخت وقت تھا ۔ آپ نے ان سب فتنوں کا بڑی بہادری،شجاعت اور فہم و بصیرت سے مقابلہ کیا ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔
لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقاما کنا نھلک فیہ لولا ان اللہ من علینا بابی بکر
” ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے حالات میں گھر گئے تھے۔کہ اگر اللہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے ۔ “
عرف عام میں اگرچہ خلفائے راشدین میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو زیادہ شہرت حاصل ہے۔لیکن حق یہ ہےکہ اگر خلیفہ اول نے پورےعرب کو ایک اسلام کے عَلَم کے نیچے لاکر نہ جمع کر دیا ہوتا۔توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نےجوعظیم کارنامے انجام دئیے۔ان کےلئےراہ ہموارنہیں ہو سکتی تھی۔( صدیق اکبر از مولاناسعید احمداکبر آبادی ص11۔مطبوعہ دہلی1957ء)
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت سوادو برس ہے۔ اور اس قلیل مدت میں آپ نےجو عظیم الشان کارنامے انجام دئیے ۔ ان کی مثال تاریخ اسلام میں مشکل ہی سےملےگی۔مولانا طالب الہاشمی مرحوم لکھتے ہیں کہ: ” حضرت ابوبکر صدیق کی مدت خلافت میں انہوں نےجوعظیم الشان کارنامےانجام دئیے۔ان کاحال پڑھ کر انسان ورطہ حیرت میں غرق ہوجاتا ہے۔انہیں اپنےدورخلافت کابیشترحصہ اندرونی اوربیرونی دشمنوں سےنمٹنےمیں صرف کرناپڑا۔لیکن اس کےباوجود وہ ملکی نظم و نسق سےغافل نہیں رہےفی الحقیقت انہوں نے اپنی قوت ایمانی،تدبروفراست اورعزم وہمت کی بدولت نوزائیدہ خلافت اسلامیہ کواتنی مستحکم بنیادوں پر قائم کر دیا۔جس پران کے اولوالعزم جانشین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےایک عظیم الشان تعمیرکردی۔ ( سیرت خلیفۃ الرسول ص477 )
علم و فضل کےاعتبارسےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جامع الکمالات تھے۔تفسیر،حدیث، علم تفسیر،علم الانساب،شعر و سخن،حکایت،تحریر و کتابت میں انہیں مہارت تامہ حاصل تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کاعظیم الشان کارنامہ”جمع قرآن مجید“ہے۔موطا امام مالک میں ہےکہ:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت زیدبن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو حکم دیاکہ قرآن مجیدکے تمام اجزاءکوجمع کرکےایک کاغذ پر
یکجاجمع کرنےکا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ۔
7جمادی الثانی13ہجری کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےغسل کیا۔اس دن سردی بہت زیادہ تھی۔جس کی وجہ سےبخار ہوگیا۔15دن مسلسل بخار رہا۔22 جمادی الثانی13ہجری بروز دو شنبہ مغرب اورعشاءکے درمیان انتقال کیا۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔اورحجرہ عائشہ رضی اللہ عنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلومیں دفن کئےگئے۔وفات کےوقت آپ کی عمربھی 63سال تھی۔
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق رضی اللہ عنہ کے لئے ہے خدا کا رسول بس