حکومت پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب اور ایران دو ایسے ممالک ہیں جو ملک میں دینی مدارس کی تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ مالی معاونت کر رہے ہیں۔
[pullquote]بی بی سی کو ملنے والے یہ سرکاری اعداد و شمار ملک بھر کے تقریباً 300 مدارس کے متعلق ہیں۔ ان کے مطابق سعودی عرب پاکستان میں 172 مدارس کی مالی ماونت کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ایران دوسرے نمبر پر 84 دینی درسگاہوں کی مدد کرتا ہے۔[/pullquote]
البتہ سرکاری دستاویز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ امداد ان مدارس کو کب کب ملتی رہی ہے۔
وفاقی وزیر مملکت برائے تعلیم محمد بلیغ الرحمان کا کہنا ہے کہ نئے سرکاری قواعد کے مطابق دینی مدارس اب کسی قسم کی بیرونی امداد حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں لے سکتے۔
’حکومت کی اس بارے میں ’زیرو ٹولرنس‘ کی پالیسی ہے۔ کوئی بھی مدرسہ ہو یا کوئی بھی فنڈ ہو اس کے لیے کہیں سے بھی رقوم آئیں گی تو وہ سٹیٹ بینک، وزارت داخلہ اور خارجہ کی این او سی کے بغیر نہیں آ سکیں گی۔ اس کو مکمل طور پر نافذ کر دیا گیا ہے اور اب بغیر اجازت براہ راست فنڈنگ کہیں سے بھی نہیں آسکے گی۔‘
مدارس کے لیے یہ فنڈنگ صرف سعودی عرب اور ایران سے نہیں بلکہ حکومت کے مطابق تھائی لینڈ اور ترکی جیسے ممالک سے بھی رقوم بھیج رہے ہیں۔
دیگر ممالک جو مدارس کی مدد کر رہے ہیں ان میں قطر، کویت، متحدہ عرب امارات، امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے چند دیگر ممالک اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔
سرکاری دستاویز کے مطابق وہ ضلعے جہاں کے مدارس سب سے زیادہ بیرونی مالی مدد لے رہے ہیں، ان میں فیصل آباد سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ لاہور اور جھنگ بھی شامل ہیں۔ بیرونی امداد حاصل کرنے والے مدارس میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں واقع ہیں۔
خیال ہے کہ حکومت کی تیار کی گئی یہ فہرست جامع نہ ہو اور اس میں کئی ایسے مدارس بھی ہوں جن کی امداد سرکاری نوٹس میں آنے سے رہ گئی ہو۔ بیرونی امداد محض مدارس کو نہیں بلکہ پاکستان کے دیگر نجی اور سرکاری سکولوں کو بھی ملتی رہی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ بیرونی فنڈنگ پر نظر رکھنے کے لیے وہ نادرا کے ذریعے ایک ڈیٹا بنک بھی قائم کر رہے ہیں۔ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جاری مہم میں مدارس میں غیرملکی طلبہ کی تعلیم بھی بند کر دی ہے۔
[pullquote]
ملک میں کتنے مدارس؟
پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے مطابق ملک میں مدارس کی مجموعی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہے۔
تاہم اس سال جولائی میں آنے والی ایک رپورٹ ’دا مدرسہ کننڈرم‘ کے مطابق ملک میں مدارس کی تعداد 35,337 ہے۔[/pullquote]
پشاور سکول حملے کے بعد ملک میں دہشت گردی کے خلاف جاری قومی ایکشن پلان کے تحت مدارس کی نمائندہ تنظیموں سے بھی حکومت مذاکرات میں مصروف ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی کو بتایا کہ مدارس کے ساتھ ان کے اندراج اور نصاب میں تبدیلیوں کے لیے اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ بلیغ الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں مختلف مسالک کے مدارس کے نمائندہ تنظیموں سے کامیاب مذاکرات میں مصروف ہے۔
[pullquote]ایک اندازے کے مطابق ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں 12 ہزار سے زائد مدارس سرگرم ہیں جن میں سے بہت کم حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ اس سال فروری میں پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ کی تیار کی گئی ایک رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی جس میں صوبے میں تقریباً ایک ہزار مدارس کو 17 ممالک سے امداد ملنے کی تصدیق کی گئی تھی۔[/pullquote]
اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ پاکستان کے سیکریٹری جنرل حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ حکومت نے انھیں کوئی ایسی تفصیلات نہیں دی ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ آیا یہ امداد سعودی اور ایرانی حکومتیں دے رہی تھیں یا وہاں کہ لوگ نجی طور پر مدد کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق: ’جب یہ تفصیلات ہمارے سامنے لائیں جائیں گی تو انشا اللہ اس پر ہم اپنی رائے بھی ضرور دیں گے۔‘
ان کا موقف تھا کہ ایسی تمام امداد کے استعمال پر بھی نظر ہونی چاہیے کہ کہیں یہ ملک کے خلاف سرگرمیوں کے لیے تو استعمال نہیں ہو رہی
[pullquote]حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر وہ اس بات کے حق میں ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والی تمام امداد چاہے وہ مدارس کے لیے ہو، سیاسی جماعتوں کے لیے ہو یا سماجی تنظیموں کے لیے ایک قانونی نظام کے تحت آنی چاہیے۔ ’ حکومت کو ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جو آسان ہو اور سب کے لیے ہو۔ وہ ہمیں قابل قبول ہوگا۔‘[/pullquote]
ان کا مزید کہنا تھا کہ مدارس و جامعات کو جو بیرونی امداد مل رہی ہے وہ زیادہ تر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی جانب سے زکوٰۃ و صدقات پر مشتمل ہوتی ہے۔ ’اس کی مقدار سینکڑوں، ہزاروں میں یا چند لاکھ میں ہے، کروڑوں میں نہیں۔‘
مدارس کی نمائندہ تنظیموں تحفظ مدارس اور پاکستان علما کونسل نے بھی ایک بیان میں حکومت سے ان مدارس کے خلاف ٹھوس شواہد سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے جو بیرونی امداد لے رہے ہیں۔
یہ رپورٹ ہارون الرشید نے بی بی سی اردو کے لیے تیار کی جسے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے ۔