بون: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ باقاعدہ ورزش کرنے والوں میں دیگرافراد کے مقابلے میں دماغ کے کچھ گوشے قدرے بڑے اور توانا ہوتے ہیں۔
پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دماغ میں آکسیجن کی زائد ضرورت والے حصوں میں یہ تبدیلی زیادہ نوٹ کی گئی ہے۔ اگرچہ ماہرین ورزش کو دماغ کے لیے مفید قرار دیتے ہیں لیکن دماغ پر اس کے اثرات کی مزید تفصیل پر اس سے قبل غور نہیں کیا گیا تھا۔
بون میں واقع دماغی تحقیق کے ادارے ڈی زیڈ این ای سے وابستہ سائنسداں، فبیئن فوکس نے بتایا کہ اس سے قبل ہم دماغی کو کلی طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے تھے لیکن ہم نے ورزش کے مختلف دماغی گوشوں پر اثرات کا جائزہ لیا ہے جو ایک اولین قدم ہے۔
ماہرین نے رائن لینڈ مطالعے کو استعمال کیا جس میں ڈی زیڈ این ای کی جانب سے کئے گئے جرمنی کے شہر بون میں ہونے والے ایک وسیع مطالعے کواستعمال کیا گیا ہے۔ اس میں 30 سے 94 برس کے 2550 افراد کے دماغ کے ایم آر آئی لیے گئے تھے۔ تمام شرکا کو ران کے اوپری حصے پر اسراع نوٹ کرنے والا ایک آلہ پہنایا گیا تھا جو حرکات و سکنات کو نوٹ کررہا تھا۔ جن افراد میں جسمانی سرگرمی یا ورزش زیادہ تھی ان کے دماغ کے قشر(کارٹیکس) اور دماغ کے حجم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا تھا۔
اس سے ثابت ہوا کہ جسمانی مشقت اور ورزش کے دماغ پر گہرے اور مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ دوسری جانب یادداشت کے ایک اہم دماغی حصے، ’ہیپوکیمپس‘ میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ دماغ جتنا بڑا ہوگا اس کی تنزلی کے امکانات بھی اتنے ہی کم ہوں گے۔
ماہرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ درمیانے درجے کی ورزش بھی دماغ پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے اور اسے بڑھاوا دیتی ہے۔ ماہرین نے اس تحقیق کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس طرح 15 منٹ کی ورزش سے بھی دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح لفٹ کی بجائے سیڑھیاں چڑھنے سے بھی بڑھاپے میں دماغی تنزلی کم کی جاسکتی ہے جبکہ جوان اس سے بہت مستفید ہوسکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے مزید کہا ہے کہ ورزش الزائیمر، پارکنسن اور ڈیمنشیا جیسے امراض میں کمی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔