جانے آپ میں سے کتنوں کی نگاہ سے یہ خبر گذری ہے کہ اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی تازہ مطالعاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پندرہ اگست سے اس برس چودہ اگست تک کابل میں طالبان کے برسرِاقتدار آنے کے ایک برس کے دوران سرحد پار پاکستان میں دھشت گردی کے واقعات میں اکیاون فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ایسے ڈھائی سو واقعات میں کم ازکم چار سو تینتیس ہلاکتیں ہوئیں اور سات سو انیس لوگ زخمی ہوئے۔ (ظاہر ہے رپورٹ میں پچھلے دو ماہ کے دوران ہونے والے مزید دہشت گرد حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد شامل نہیں ہے )۔
اس کے مقابلے میں اشرف غنی حکومت کے آخری بارہ ماہ کے دوران ( اگست دو ہزار بیس تا اگست دو ہزار اکیس ) سرحد پار سے ایک سو پینسٹھ حملوں میں دو سو چورانوے لوگ مارے گئے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ میں ان سرکاری اعداد و شمار کو بھی چیلنج کیا گیا ہے جن کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران افغانستان سے پاکستان آنے والے نئے پناہ گزینوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے ستر ہزار کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں ( یو این ایچ سی آر ) کا اندازہ ہے کہ لگ بھگ تین لاکھ نئے افغان پناہ گزینوں نے اس عرصے میں سرحد پار کی ہے۔
ان اعداد و شمار کے تعلق سے دو باتیں قابلِ غور ہیں۔پہلی یہ کہ اب تک حکومت کی جانب سے سرحد پار حملوں کے سالانہ اعداد و شمار سامنے نہیں آ سکے اور یہ کام بھی ایک نجی ٹھنک ٹینک کو کرنا پڑا ہے۔
دوم یہ کہ اگر سرکاری دعوؤں کے مطابق صرف ساٹھ سے ستر ہزار نئے پناہ گزین ہی پاکستان میں داخل ہوئے ہیں تو باقی دو لاکھ تیس ہزار پناہ گزین کہاں گئے؟ جو بقول اقوامِ متحدہ پاکستان میں داخل ہوئے؟ اگر ان کی نہ یو این ایچ سی آر میں رجسٹریشن ہوئی اور نہ ہی سرکاری امیگریشن ریکارڈ میں ان کا وجود ہے تو پھر یہ سرحد پار کر کے کہاں گئے۔
گزشتہ برس کابل پر طالبان کے قبضے سے پہلے کیے گئے ان سرکاری دعوؤں کا کیا ہوا کہ اس بار آنے والے پناہ گزینوں کو سرحد کے نزدیک قائم خصوصی کیمپوں میں رکھا جائے گا اور ان کی نقل و حرکت محدود رہے گی۔اور اگر سرکار کے پاس ریکارڈ موجود ہے مگر وہ اتنی زیادہ تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کا اعتراف کرنے سے ہچکچا رہی ہے تو پھر اس بابت اس کے باقی دعوؤں پر کس قدر اعتبار کرنا چاہیے۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی معرفت کہا گیا ہے کہ اس بات کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ افغان انتظامیہ ملک میں پہلے سے موجود دھشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی سرحد پار سرگرمیوں میں سنجیدگی سے رکاوٹ ڈالنے کی خواہش رکھتی ہے۔
اس وقت بھی وہاں القاعدہ کا وجود ہے جس کی ایک ٹھوس شہادت چند ماہ قبل کابل میں ایمن الزواہری کی ایک ڈرون حملے سے ہلاکت ہے۔اس کے علاوہ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان ( آئی ایم یو ) ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ ( ایٹم ) ٹی ٹی پی اور داعش کا ڈھانچہ کم و بیش جوں کا توں فعال ہے۔
بالخصوص ترکستان اسلامک موومنٹ کی سرگرمیاں محدود کرنے میں ناکامی پر طالبان انتظامیہ اور چین کے تعلقات میں ابتدائی دنوں والی گرمجوشی تیزی سے کم ہونے کی اطلاعات ہیں۔طالبان انتظامیہ کی عالمی تنہائی کے ماحول میں چین کا ہمدردانہ رویہ اور اقتصادی سرمایہ کاری کے امکانات فی الحال مبینہ طور پر کابل انتظامیہ کی ڈھلمل اور مبہم پالیسی کے سرد خانے میں جا چکے ہیں۔
اگر ان مذکورہ تنظیموں میں سے کسی ایک تنظیم کے خلاف کارروائیوں میں طالبان انتظامیہ سنجیدہ ہے تو وہ اسلامک اسٹیٹ خراسان ( داعش ) ہے۔ کیونکہ داعش طالبان کی رٹ کو مسلسل چیلنج کر رہی ہے اور اپنے وجود کو سرحد پار بھی پھیلا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ اب وسطی اور جنوبی ایشیا بالحضوص پاکستان میں دہشت گردی کم از کم سرحد پار سے نہیں ہو گی کیونکہ پاکستانی ریاست نے امریکا اور امریکی نواز کابل حکومت کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی تنہائی کا خطرہ مول لیتے ہوئے طالبان کا نائن الیون کے بعد بلاواسطہ ساتھ دیا ہے اور ان کے اور قابض امریکا کے درمیان ایک قابلِ قبول سمجھوتہ کروانے میں پسِ پردہ فعال کردار بھی ادا کیا ۔
یہ اب قبل از وقت شادیانے بجانے والے لوگوں کے سوچنے کا مقام ہے کہ افغان طالبان نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان کے ٹی ٹی پی کے تعلق سے اسٹرٹیجک اور سلامتی کے مفادات کا پچھلے ایک برس میں کس قدر خیال رکھا۔
نوبت بہ ایں جا رسید کہ اب خیبر پختون خوا کے افغان سرحد سے متصل سابق قبائلی اضلاع اور اندرونی علاقوں بالخصوص مالاکنڈ ڈویژن میں کوئی بھی عام شہری صوبائی ، وفاقی یا کسی بھی دیگر متعلقہ فریق کی اس یقین دہانی پر اعتبار کرنے پر تیار نہیں کہ پہلے کی طرح سب ٹھیک ہے یا ٹی ٹی پی پہلے کی طرح قابو میں ہے۔یا اس کے نام پر جو دھشت گرد کارروائیاں ہو رہی ہیں ان کا ٹی ٹی پی سے براہ راست تعلق نہیں ۔یہ مٹھی بھر شرپسند ہیں جو اپنے ذاتی بدلے نکال رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
بے یقینی کی فضا مزید گہری ہو جاتی ہے جب یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ٹی ٹی پی سے گزشتہ ایک برس میں کیا بات چیت ہوئی۔کس نے کروائی ، کس نے کی۔کیا یہ بات چیت مرکزی اور صوبائی حکومت کو ہر ہر مرحلے میں اعتماد میں لے کر کی گئی ؟ کیا پارلیمنٹ یا اس کی کوئی متعلقہ کمیٹی اس کی تفصیلات سے آگاہ ہے؟ کیا یہ بات چیت کامیاب ہوئی۔
ناکام ہوئی، جزوی کامیاب یا ناکام ہوئی ، کیا اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی سے ان کے ضمانتیوں کی موجودگی میں کوئی زبانی یا تحریری سمجھوتہ یا انڈر اسٹینڈنگ ہوئی جس کے سبب خیبر پختون خوا کے کچھ علاقوں میں بالخصوص ان کی نقل و حرکت بڑھ گئی۔
اگر کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ یا انڈر اسٹینڈنگ ہوئی تو اس کے بعد دھشت گردی کی کارروائیاں کم ہونے کے بجائے اور کیوں بڑھ گئیں۔اگر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو پایا تو پھر حکومت اور متعلقہ ادارے ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے انھی کے انداز میں نمٹنے کے بجائے پرامن طریقے سے مسئلے کا حل نکالنے اور اپیلیں کرنے پر کیوں بضد ہیں۔
اس معاملے میں اس طرح عوام کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جا رہا جیسا کہ دو ہزار نو کے سوات آپریشن اور اس کے بعد شمالی و جنوبی وزیرستان کے آپریشنز کے وقت اعتماد میں لیا گیا ؟ جہاں دھواں ہوتا ہے وہیں کہیں نہ کہیں آگ بھی ہوتی ہے۔کیا پہلے کی طرح پانی سر سے اونچا ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے یا پھر کوئی مربوط حکمتِ عملی بنانے میں شدید دشواریاں ہیں۔ یا پھر ہاتھوں سے لگائی گانٹھ دانتوں سے کھولنے کی پھر سے ہمت نہیں ہو پا رہی ؟
کچھ تو ہے۔ابھی اعتماد میں لے لیں تو کم نقصان ہوگا۔ویسے بھی دھشت گردی اکیلی بلا تو نہیں ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہو۔ہمارے پیچھے تو درجن بھر قدرتی و انسانی بلائیں پڑی ہوئی ہیں۔