سائبر کرائم قوانین ہونے کے باوجود خواتین صحافیوں کو انصاف نہیں ملتا۔لمحہ فکریہ ہے اگر کوئی خاتون صحافی ایف آئی اے میں شکایات درج بھی کروائے تو اسےمقدمہ واپس لیناپڑتا ہے۔
خواتین صحافی گزشتہ کئی سالوں سے آن لائن ہراسمنٹ اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا شکار ہو رہی ہیں ۔ سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں کو انکی آزادانہ رائے کا اظہار کرنے پر توہین آمیز الفاظ ، کردار کشی اور ذاتی نوعیت کی معلومات کو پبلک کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحا ن سے ملک میں اس فلیڈ میں آنے والی فریش گریجوایٹ خواتین صحافیوں کی حوصلہ شکنی کی مہم جاری ہے ۔سوال یہ ہے کہ ملک میں سائبر کرائم قانون ہونے کے باوجود روز بروز آن لائن ہراسگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان پینل کوڈ 1860، پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 اور ہتک عزت آرڈیننس 2002 مذکورہ قوانین خواتین کوتحفظ دیتے ہیں۔ خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ2018ء کے الیکشن کے بعد آنے والی تحریک انصاف کی حکومت میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے سائبر ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔اس معاملے میں پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "خواتین صحافیوں کو یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر جانا چاہیے وہاں موجود تمام سیاسی جماعتیں اس ایشو کو متعلقہ کمیٹی کو ریفر کر ے تاکہ اس معاملے کی تحقیق باقاعدہ طریقہ کار کے تحت ہو سکے” ۔
آن لائن ہراسگی کی وجہ سے پاکستان کی معر ف خواتین صحافی جن میں عاصمہ شیرازی ، نسیم زہرہ ، غریدہ فاروقی ، عنبر شمسی ، بے نظیر شاہ ، مہمل سرفراز ، زیب النساء برکی ، عالیہ چغتائی ، عائشہ بخش ، منیزے جہانگیر ، رمشا جہانگیر ، علینہ فاروقی ، ریم خورشید ، ناجیہ اشعر اور بہت سی خواتین صحافی ٹویٹر ٹرینڈ کے ذریعےذہنی دباؤ میں مبتلا رہی ہیں ۔اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے پیشہ ورانہ فرائض سر انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہو گیا ۔ان خواتین صحافیوں کے نام پڑھنے کے بعد "حقائق کاسامنا نہ کرنے والے میڈیا ہوسز اور سول سوسائٹی کے ذہن میں خیال ضرور آئے گا کہ یہ ایک مخصوص خواتین صحافیوں کاگروپ ہے جو بس اس ایشو کو منظر عام پر لا رہا ہے۔اس تحقیقی رپورٹ کا مقصدا ن پس پردہ عوامل کو سامنے لانا ہے جو اختیارات ، قانون اور وسائل ہونے کے باوجودخواتین کو تحفظ دینے میں کہیں نہ کہیں ناکام ہیں۔
یہ نام ا ن خواتین صحافیوں کے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے صنف پر مبنی بد سلوکی،جنسی اور جسمانی تشدد کی دھمکیوں کو حکومت اور ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے سامنے رکھا ۔معر ف صحافی ہونے کے باوجود سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ایف آئی اےمیں شکایات درج نہیں کروائی ۔حکومت کے سامنے آن لائن ہراسگی کے ایشوکو اٹھانے سے ملک بڑے اور چھوٹے شہروں سے تعلق رکھنے والی خواتین صحافی اپنے حق میں آواز بلند کرنے لگی ہیں ۔سینئر صحافی اورتجزیہ کار بینظیر شاہ کا کہنا ہے کہ” خواتین صحافی اس لئے بھی چپ ہیں کہ ایف آئی اے میں خواتین کا عملا بہت کم ہے شکایت درج کروانے والی خواتین صحافی کو مرد تفشیشی افسر کی طرف سے کئے جانے والے نہ مناسب سوالات کی وجہ سے ٹھیک سے تمام حقائق بیان نہیں کر پاتیں”۔
چئیر پرسن وومن پولیس کے مطابق” ملک بھر میں سائبر کرائم ونگ ڈیپارنمنٹ میں 46خواتین اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔ اعدوشمار کے مطابق 32خواتین تفشیشی افسر جبکہ 14خواتین ٹیکنکل ڈیپارنمنٹ میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی اے کے دفاتر میں قریباً 200خواتین کام کر رہی ہیں ۔ جن میں امیگریشن ڈیپارنمنٹ میں 2003سے جبکہ انویسٹیگیشن ڈیپارنمنٹ میں 2010ء کو عملہ تعینات کیا گیا تھا”۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کے جانب سے موصول ہونے والے اعدوشمار کے مطابق ایک سال کے دوارنیہ میں صرف 2خواتین صحافیوں نے شکایات درج کروائی ۔رپورٹ کے مطابق ایک خاتوں صحافی نے اپنا کیس واپس لے لیا جبکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی صحافی انصاف کی خاطر مقدمہ لڑ رہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سائبر کرائم ونگ کے دئے گئے اعداوشمار میں ملک بھر سے 2141خواتین نے شکایات درج کروائیں جن میں سے 439مقدمات کی صورت میں چل رہے ہیں ۔2ہزار خواتین میں سے صرف 2صحافی خواتین نے آن لائن ہراسمنٹ کے خلاف رپورٹ درج کروائی۔ سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنا موقف دیتے ہوئے کہا کہ” یہ بات درست ہے کہ خاتوں صحافی ایف آئی ار درج نہیں کرواتی بشمول میرے کیونکہ یہاں کوئی منصفانہ نظام ہے ہی نہیں اور دوسرا حکومتی اداروں کا اثرورسوخ حد سے زیادہ ہے۔سب سے اہم ایف آئی ار درج کرانے کے بعد انصاف کے لئے چکر لگانے پڑتے ہیں فوراً انصاف نہیں ملتا۔انہوں نے مزید بتایا کہ جب ایک نجی چینل کی طرف سے میری کردار کشی کی گئی تو میں پیمرا کی سی او سی میں گئی تھی ۔اصولی طور پر جس مخصوص ٹائم میں فیصلہ کا ہونا طے تھا وہ ٹائم بھی گز ر گیا مگر فیصلہ آج تک نہیں ہو سکا۔اس بات سے آپ اندازہ لگا لیں کہ پاکستان میں انصاف دلاوانے والے فورمز عوام کے لئے کتنے موثر ہیں”۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے ” ڈیجیٹل رائٹس فانڈیشن "کی جانب سے دئیے گئے اعداوشمار کے مطابق جنوری 2022سے اکتوبر2022تک 48 صحافیوں نے آن لائن ہراسگی کی شکایات درج کروائی۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ خواتین صحافیوں نے ڈی آر ایف کی ہیلپ لائن میں سب سے زیادہ سوشل میڈیاپر دھمکیوں کی13شکایات رپورٹ ہوئیں۔
ہتک عزت اور ہیکنگ کے ,7 7 ,توہین آمیز پیغامات 3،اکاؤنٹ غیر فعال: 3، اور خطرہ: 3، جبکہ بلیک میلنگ: 2، غیر مطلوبہ رابطہ 2، جعل سازی: 1، جی بی وی 1، اور این سی یو آئی: 1 کے رپورٹ ہوئے۔اسی طرح اکاؤنٹ غیر فعال 5، توہین آمیز پیغامات3، دیگر 6، عمومی تحقیقات 3 ، غنڈہ گردی 2، غیر مطلوبہ رابطہ 2، جی بی وی 2 جبکہ این سی آئی آئی 1 ،بلیک میلنگ1 ،لاگ ان کے مسائل 1 ،جعل سازی1 ،غیر کوآپریٹو سوشل میڈیا 1 ،متعلقہ ایف آئی اے 1 ،سنسرشپ 1،مالی دھوکہ دہی 1،معلومات کی درخواست1، جبکہ ایک خاتوں صحافی کو توہین رسالت کی دھمکی بھی دی گئی۔ ڈی آر ایف کی گزشتہ ایک سالہ 2021کی رپورٹ شائع ہو ئی جسکے مطابق سب سے زیادہ 95خواتین صحافیو ں نے آن لائن ہراسگی پر انکی ہیلپ لائن پر مدد کر لئے کال کی تھی۔
[pullquote]کیا سیاسی جماعتیں خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراسگی سےروک سکتی ہیں ؟[/pullquote]
ٹویٹر ٹرینڈ کے ذریعے ملنے والی دھمکیاں ،بہتان،بدسلوکی اور بہت سے نا مناسب الفاظ کا استعمال کر کے متعدد ٹرولز کی وجہ سے سینئر خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا کا استعمال یو تو کم کر دیا ان میں سے کچھ سلف سنسر شپ میں چلی جاتی ہیں ۔سائبر کرائم ایکٹ دفعہ 24 کے تحت انفارمیشن سسٹم نیٹ ورک، انٹرنیٹ ویب سائٹ، الیکٹرانک میل،سوشل میڈیا ایپ یا مواصلات کے ذرائع استعمال کرکے کسی بھی شخص کو دھمکانے یا ہراساں کرنے کے افراد کے خلاف ایف آئی اے کاروائی کا حق رکھتا ہے۔عاصمہ شیرازی ،غریدہ فاروقی،بینظیر شاہ ، منیزے جہانگیر، رابعہ انعم اور بہت سے تجربہ کار صحافیوں کو سیاسی جاعتوں سے تعلق رکھنے والے ٹویٹر صارفین نے ہراساں کیا ۔ ملک بھر سے خواتین صحافیوں نے سیاسی جماعت(پی ٹی آئی ) کے حامیوں کی جانب سے ہراسانی اور آن لائن دھمکیوں کے خلاف ٹویٹر پر #AttacksWontSilenceUs ایک ٹرینڈ کے طور پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ اگست 2020کو سائبر حملوں میں اضافےکو مد نظر رکھتے ہوئے ُاس وقت کے ہیومن رائٹس کمیشن کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے زیر صدارت اجلاس میں خواتین صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ ، "سوشل میڈیا کے ذریعے خواتین صحافیوں کو حکومت کے حامیوں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے”۔ ان کا مطالبہ تھا کہ "ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے سوشل میڈیا ٹیمزکو خواتین صحاٖفیو ں کے خلاف آن لائن ہراسانی اور اور نا زیبا الفاظ والی ٹویٹس کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیں”۔اس مشترکہ بیان پر ملک کی معروف 150خواتین صحافیوں نے دستخط کئے تھے۔سینئر صحافی بینظیر شاہ بھی اسی اجلاس کا حصہ تھیں انہوں نے بتایا کہ ” اس اجلاس کا مقصد تمام سیاسی جماعتیں اپنی سوشل میڈیا ٹیمز کو انتباہ کریں کہ ٹویٹر پر خواتین صحافیوں کوہراساں کرنا بند کریں۔اس سلسلے میں تمام خواتیں صحافیوں نے ثبوت کے طور پر پرنٹ فارم میں ٹویٹس کی فائلز ہیومین رائٹس کمیشن کے حوالے بھی کیں تھیں۔مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اس معاملے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کی، یہ سلسلہ جوں کے توں ہے۔نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیر پرسن ربیعہ جاویری آغا سے جب اس سلسلے میں بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ”ہم نے جب وزارت برائےانسانی حقوق کو ایک خط لکھا کہ خواتین صحافیوں کے آن لائن ہراسمنٹ کے حوالے ہونے مشترکہ بیاں کے بارے میں کوئی حکمت عملی ترتیب جائے۔اس خط کے جواب میں لکھا گیا کہ اجلاس کے میٹنگ منٹس ہی نہیں ملے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین صحافیوں کی اس کوشش کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا”۔ عاصمہ شیرازی نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ میں نہ صرف خواتین صحافیوں کے لئے بلکہ تمام صحافیوں کے لئے کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تھی مگر افسوس تمام سیاسی جماعتیں سائبر ہراسگی کے معاملے میں خاموش رہیں۔خواتین کو آن لائن ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو ہیومن رائٹس کمیشن،وومن اور وزارت اطلاعات و نشریات نے کسی خاطر میں لانا مناسب نہیں سمجھا خاص کر ایک سیاسی جماعت جو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی لوگوں اور انکے بیانیے کو کنٹرول کرتی ہے کبھی اس معاشرتی برائی کو ختم کرنے کو سنجیدہ نہیں لے گی”۔
خواتین صحافی کو قانون کے بارے میں علم ہونے کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے )میں شکایات کو نہ لے کر جانے کی بہت سی وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ خواتین تفشیشی افسر کا نہ ہونا،رپورٹ درج کروانے کے دوران پوچھے جانے والے نہ مناسب سوالات ،ثبوت کا غائب ہونا اور سب سے بڑھ کر تاریخ پر تاریخ دینا۔خواتین صحافیوں نے متعدد بار حکومت اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کو متعلقہ اداروں کے نہ مناسب رویے کی طرف توجہ مبذول کروائی ،مگر بے بس خواتین کی طرح ادارے بھی پس پردہ بے بس ہی نظر آتے ہیں۔