ایڈیٹر صاحب نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پوچھا، جنگ میں سب ایڈیٹرز کا اشتہار آیا تھا۔ آج آخری تاریخ ہے۔ کیا آپ نے درخواست بھیجی؟
جی نہیں، میں نے کہا۔ کیوں بھئی؟ انھوں نے پوچھا۔ میں یہاں خوش ہوں۔ سب سے دوستی ہے۔ نیوزروم کا ماحول اچھا ہے۔ ایڈیٹوریل پیج پر کالم اور سنڈے میگزین میں مضامین چھپ رہے ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ آپ یہاں ہیں۔ مجھے کہیں جانے کیا ضرورت ہے؟ میں نے جواب دیا۔
یہ سب جذباتی باتیں ہیں۔ پروفیشنل صحافی کو بہتر مواقع اور زیادہ تنخواہ کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔ یہاں ڈھائی سال سے تنخواہ نہیں بڑھی۔ آپ درخواست بھیجیں۔ ایڈیٹر صاحب نے نصیحت کی۔ سر، سلیم عامر صاحب نے کچھ خبریں ترجمہ کرنے کو دی ہیں۔ پہلے وہ کرلوں۔ میں منمنایا۔ نہیں، سب کام بعد میں۔ بلکہ یہیں میرے کمپیوٹر پر درخواست ٹائپ کریں۔ ایڈیٹر صاحب نے زور دیا۔
میں نے جلدی جلدی درخواست لکھی اور مختصر سا بایوڈیٹا بنایا۔ ایڈیٹر صاحب نے ایڈمن افسر کو بلاکے کہا، سٹی آفس جانے والے آفس بوائے سے کہیے، یہ لفافہ جنگ کے دفتر میں دے آئے۔
مجھے جنگ سے کال آگئی۔ انٹرویو ہوا تو جنگ کے افسروں نے کہا، تین دن ہمیں کام کرکے دکھائیں۔ میں نے دفتر آکر ایڈیٹر صاحب کو بتایا۔ انھیں غصہ آگیا۔ کیا مطلب، آپ بڑے اخبار میں کام کررہے ہیں۔ کالم چھپ رہے ہیں۔ ٹیسٹ کی کیا ضرورت ہے؟
پھر انھوں نے اپنے فون سے جنگ کے محمد سلیمان صاحب کو فون ملایا اور ریسیور مجھے دے کر کہا، ان سے کہو، مجھے ایسے ہی اپائنٹمنٹ لیٹر دینا ہے تو دیں، میں ٹیسٹ نہیں دوں گا۔ میں ہکابکا رہ گیا۔ ادھر سے سلیمان صاحب نے کہا، ہیلو۔ میری سٹی گم تھی۔ بڑی مشکل سے ایڈیٹر صاحب کے الفاظ دوہرائے۔ سلیمان صاحب نے کہا، اچھا جیسے آپ کی مرضی۔
لائن کٹ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ جنگ کی ملازمت کا پتا بھی کٹ گیا۔ اگلے دن میرا آف ڈے تھا۔ میں ایڈیٹر صاحب کو بتائے بغیر جنگ کے دفتر گیا اور آٹھ گھنٹے نیوزروم میں کام کیا۔ اسی دن ملازمت پکی ہوگئی۔ میں نے ایڈیٹر صاحب کو کبھی یہ بات نہیں بتائی۔ صرف یہ کہا کہ جنگ نے لیٹر بھیج دیا ہے۔ انھوں نے ہنسی خوشی رخصت کیا۔
وہ ایڈیٹر، ایکسپریس کے طاہر نجمی صاحب تھے۔ بہترین پروفیشنل اور حقیقی مزدور دوست انسان۔ بڑوں اور چھوٹوں کے ایک جیسے دوست۔ آپ کراچی پریس کلب جاکر پوچھیں، سیکڑوں افراد ملیں گے جو کہیں گے کہ نجمی صاحب ان کے قریبی دوست تھے۔ مجھے ایکسپریس چھوڑے ہوئے بائیس سال ہوگئے لیکن ان سے رابطہ برقرار تھا۔ امریکا آنے کے بعد بھی ان سے فون پر لمبی گفتگو ہوتی رہی۔
ابھی میں اپنے دوست کاشف رضا کی تحریر پڑھ رہا تھا جس نے ایکسپریس کے آغاز کے دنوں کو یاد کیا ہے۔ یہ میڈیا گروپ کبھی کامیاب نہ ہوتا اگر اس کا پہلا اخبار نہ چلتا۔ اور وہ اخبار، کراچی کا ایکسپریس نجمی صاحب نے کھڑا کیا۔ ان دنوں ایڈیٹر نیر علوی تھے۔ بے شک ان کا کریڈٹ نہیں چھینا جاسکتا لیکن وہ نوائے وقت سے آئے تھے اور پرانے زمانے کے مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ ایکسپریس کی ٹیم نجمی صاحب نے بنائی، وہ جنگ سے اپنے دوستوں کو لائے، ہم جیسے نوجوانوں پر اعتبار کرکے موقع دیا اور نئی ٹیکنالوجی کو قبول کیا۔ ایکسپریس پہلا اخبار تھا جو مکمل طور پر کمپیوٹر پر بنا اور چھپا۔ یہی پہلا اخبار تھا جس نے انٹرنیٹ سے بہترین استفادہ کرکے دوسرے اخباروں کو پیچھے چھوڑا۔ کسی دن میں وہ کہانی بھی لکھوں گا۔
ایم کیو ایم کے عروج کے دور میں ہر نیوزروم میں ان کی پریس ریلیزوں کے فیکس آتے تھے۔ آٹھ دس تو معمول تھا لیکن کبھی اس سے زیادہ بیانات اور خبریں بھی ہوتی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایکسپریس میں نائن زیرو سے فون آیا تو نجمی صاحب نے کہا، آپ پچاس صفحے بھیجیں، چھپے گی صرف ایک پریس ریلیز۔ الطاف بھائی سے پوچھ کر بتادیں کہ کون سی چھاپوں۔ اس کے بعد ایکسپریس میں ایم کیو ایم کی ہمیشہ ایک ہی پریس ریلیز چھپی۔
نجمی صاحب نے منہاج برنا اور احفاظ الرحمان جیسے صحافی رہنماؤں کے ساتھ وقت گزارا۔ ان سے صحافتی سیاست اور مزاحمتی صحافت سیکھی۔ امن کے اجمل دہلوی بھی ان کے استاد تھے۔ میں نے ان کی بہت تعریفیں سنی ہیں۔ نجمی صاحب نے اچھی سرخی نکالنے کا فن شاید انھیں سے سیکھا۔ اس معاملے میں میرے استاد سید محمد صوفی اور طاہر نجمی تھے۔ مجھے جیونیوز کی ہیڈلائنز پر داد ملتی تھی تو میں دل میں ان دونوں کا شکریہ ادا کرتا تھا۔
کاشف نے آج مزے کی بات یاد دلائی ہے کہ جن دنوں نجمی صاحب نیوز ایڈیٹر تھے، تب روزانہ اخبار میں کسی حسینہ کی تصویر چھاپتے تھے۔ مجھے ان کی وجہ سے کئی سوپر ماڈلز، اداکاراؤں اور گلوکاراؤں کے نام یاد ہوئے۔
نجمی صاحب ٹھرکی نہیں تھے، وہ اخبار خریدنے والوں کی نفسیات جانتے تھے۔ میں نے ان کی تقلید کی۔ جیونیوز کا پروڈیوسر بنا تو بلیٹن میں ایک دو مسالے دار آئٹم ضرور رکھتا تھا۔ بلکہ اکثر یہ شیخی بھی مارتا تھا کہ سب پروڈیوسر اور تمام چینل منجن بیچتے تھے، میں منورنجن بیچتا ہوں۔
میرے سامنے صرف ایک بار ایسا ہوا کہ مزدور دوست نجمی صاحب نے ایک شخص کو ملازمت سے نکالا۔ ایک پیج میکر لڑکے نے شاید کسی سے لڑائی کی تھی کیونکہ کام کی غلطیاں نجمی صاحب معاف کردیتے تھے۔ میں نے بہت جونئیر ہونے کے باوجود نجمی صاحب سے کہا کہ اسے کوئی سزا دے دیں، ملازمت سے نہ نکالیں۔ اس کا گھر کیسے چلے گا۔ نجمی صاحب نے کہا، مبشر صاحب، ایک بات یاد رکھیں۔ وی آر ناٹ گاڈ۔ رزق کا ذمہ ہمارا نہیں ہے۔ اس نوجوان کو کوئی اور جاب مل جائے گی۔ لیکن اس واقعے سے یہ سبق سیکھے گا اور آئندہ غلطی نہیں کرے گا۔ وہی ہوا۔ چند دن بعد وہ نوجوان ملنے آیا اور اس نے بتایا کہ اسے آکسفرڈ یونیورسٹی پریس میں بہتر ملازمت مل گئی ہے۔
نجمی صاحب مجھ پر واقعی مہربان تھے۔ میرے کہنے پر کئی لوگوں کو ملازمت دی۔ ایک بار مجھے جنگ سے بلاکر زیادہ تنخواہ کی پیشکش کی۔ میں نے کہا کہ آپ کم پیسے بھی دیں تو انکار نہیں کرسکتا لیکن ایک مجبوری ہے۔ وہ انھیں بتائی۔ انھوں نے خوش دلی سے کہا، آپ جنگ میں کام کرتے رہیں اور مجھے ایک دو نام تجویز کردیں۔
جب میں جیو کے دبئی اسٹیشن میں کام کرتا تھا تو ایک بار نجمی صاحب کسی کام سے دبئی آئے اور آواری میں ٹھہرے۔ میں انھیں اپنے گھر لے گیا اور ہم نے کھانا ساتھ کھایا۔ کئی گھنٹے خوب باتیں کیں۔ میرا بیٹا تین سال کا تھا۔ انھوں نے پوچھا، آپ کا کیا نام ہے؟ بیٹے نے کہا، حسین۔ نجمی صاحب بولے، بھئی پاکستان میں یہ بہت خطرناک نام ہے۔ آپ نام بدلیں یا ملک بدلیں۔
جن دنوں سلطان لاکھانی ایکسپریس نیوز کی تیاریاں کررہے تھے، نجمی صاحب نے مجھ سے کہا، آپ جیو میں کام کرتے ہیں، ذرا مجھے بتائیں کہ چینل میں کتنے لوگ کام کرتے ہیں، کتنے شعبے ہوتے ہیں، نیوز سائیکل کیسے چلتا ہے، ڈائریکٹر نیوز کے لیے کون سی اور کس قدر ٹیکنیکل معلومات درکار ہوتی ہیں۔ میں نے کہا، نجمی صاحب، میں سب بتادیتا ہوں لیکن لاکھانی صاحب آپ کو یہ موقع نہیں دیں گے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اخبار ٹھیک چلارہے ہیں اور وہ آپ کو ہٹاکر اخبار کو خراب نہیں کرنا چاہیں گے۔ دوسرے یہ کہ وہ چینل لاہور سے لانچ کریں گے اس لیے لاہور کے کسی سینئر صحافی کو یہ ذمے داری دیں گے۔ بعد میں وہی ہوا۔
نجمی صاحب کراچی کے صحافیوں میں مقبول تھے۔ وہ کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹس دونوں کے سیکریٹری رہے۔ ایڈیٹر بننے کے بعد الیکشن میں حصہ لینا چھوڑ دیا لیکن صحافی رہنماؤں کی مشاورت جاری رکھی۔الیکشن والے دن پریس کلب میں ضرور ملتے تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اب نہ وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس رہی، نہ وہ کراچی پریس کلب ہے اور نہ وہ صحافت ہے۔ نجمی صاحب اس نئے سسٹم میں ان فٹ تھے۔
ابھی چند ہفتے پہلے ان سے آخری بار فون پر بات ہوئی تھی۔ معلوم نہیں تھا کہ وہ بیمار ہیں۔ میں ان سے اپنے کرئیر کے مشورے کرتا رہتا تھا اور چار دن بعد ایک خبر سنانے والا تھا۔ لیکن کل ان کے انتقال کی خبر ملی۔ دل دکھا ہوا ہے۔
نجمی صاحب بڑے صحافی تھے لیکن اکثر کہتے تھے، میاں ہم تم صحافی نہیں ہیں، حکم کے غلام ہیں، کلرک ہیں، مزدور ہیں۔ صحافی میر شکیل الرحمان ہیں، حمید ہارون ہیں، سلطان لاکھانی ہیں۔ آزادی صحافت کا مطلب آزادی اظہار نہیں۔ جب تک میں اخبار میں کام کرتا تھا، یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن نیوز چینلوں کے آنے کے بعد مجھے کیا، سب کو سمجھ آگئی ہے۔ بلکہ بعد میں میڈیا مالکان بھی مالکان ریاست کے غلام ہوگئے۔ اب آزادی کا لفظ ایک دھوکا ہے، ڈھکوسلا ہے۔