صحت سے متعلق معاملات دیکھنے والے برطانوی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ وہاں پہلی بار تین مشترکہ افراد کے بچے کی پیدائش ہوگئی۔
برطانوی پارلیمنٹ نے 2015 میں اِن وائٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) ترمیمی بل کی منظوری دی تھی، جس کے بعد وہاں سنگین صورت حال میں تین افراد کے مشترکہ بچے کی پیدائش قانونی قرار دی گئی تھی۔
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد بھی برطانیہ میں مذکورہ قانون پر بحث جاری رہی اور کئی افراد اسے اخلاقی طور پر غلط قرار دیتے رہے جب کہ بعض افراد کا ماننا تھا کہ اس طرح آنے والی نسلوں کے ڈی این اے تبدیل ہوتے رہیں گے۔
قوانین کی منظوری کے 8 سال بعد اب حکومتی ادارے نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ میں تین افراد کے پہلے مشترکہ بچے کی پیدائش ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق ہیلتھ ریگولیٹری نے تصدیق کی کہ تین افراد کے پہلے مشترکہ بچے کی پیدائش ہوگئی۔
ادارے نے بتایا کہ پیدا ہونے والے بچے کا زیادہ تر ڈی این اے والدہ اور والد کا ہی ہے، تاہم ان کے ڈی این اے میں 1۔0 فیصد حصہ عطیہ کرنے والی خاتون کا ہے۔
اسی حوالے سے برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عطیہ کرنے والی خاتون کے انڈے ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) نامی جھلی یا انتہائی چھوٹے خلیات کا ڈی این اے حاصل کیا گیا، جسے والدہ کے انڈے میں موجود غیر صحت مند ’مائٹوکونڈریا‘ سے تبدیل کردیا گیا۔
’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) نامی انتہائی چھوٹی جھلیاں انسانی جسم کے ہر خلیے میں پائی جاتی ہیں جو کہ غذا کو توانائی یا خون سمیت دیگر چیزوں میں تبدیل کرکے انسانی جسم کی نشو و نما میں کردار ادا کرتی ہیں۔
’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) کا کام انسانی جسم میں شامل ہونے والی ہر غذا کو صحت مند خون یا توانائی میں تبدیل کرکے جسم کو صحت مند رکھنا ہے۔
تاہم اگر بعض ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) خراب ہوں تو وہ جسم میں شامل ہونے والی غذا کو خراب کرکے اندر بیماریاں یا پیچیدگیاں پھیلانے کا کام کرتی ہیں۔
عام طور پر خراب ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) دل کے ناکارہ ہونے سمیت دماغ کے ناکارہ ہونے، اعصابی کمزوری اور بینائی کا سبب بنتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بعض بچوں میں ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) کے خراب ہونے کی وجہ سے ان میں ماں کے پیٹ میں ہی بیماریاں ہوجاتی ہیں یا پھر وہ پیدائش کے کچھ گھنٹوں یا دنوں بعد مرجاتے ہیں۔
برطانیہ کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں خراب ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کی زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
نئے طریقے اور قوانین کو ’مائٹوکونڈریا‘ (Mitochondria) بیماریوں کے علاج کے لیے ہی منظور کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال برطانیہ میں کم از کم 5 ایسے بچے پیدا ہوئے ہیں جن کے والدین تین تھے، تاہم حکومت اور ادارے اس متعلق مزید معلومات فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
اگرچہ برطانیہ میں پہلی بار تین افراد کے بچے کی پیدائش کی تصدیق کردی گئی، تاہم امریکا میں 2015 میں ہی تین افراد کے پہلے بچے کی پیدائش ہوچکی تھی۔
ماہرین کے مطابق تین افراد کے بچوں کا ڈی این اے نسلوں تک تبدیل ہوتا رہے گا اور ان کے ڈی این اے میں والدین کے علاوہ عطیہ کرنے والے شخص کا ڈی این اے بھی شامل ہوگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ طریقے کے تحت بچوں کے چہرے اور جسمانی خدوخال تبدیل نہیں ہوتے بلکہ ان کی موروثی بیماریاں ختم کرنے کے لیے ان میں تیسرے شخص کے ڈی این اے کا انتہائی چھوٹا حصہ شامل کیا جاتا ہے۔