نوجوان طالب علم ناکامی کے بعد خودکشی کی طرف کیوں مائل ہو رہے ہیں

میں آج کے نوجوان کو دیکھ کر حیرت کا شکار ہوں کہ آخر وہ کیوں میٹرک کے بعد اپنے شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا کر پڑھنا چاہتا ہےوجہ تو بہت ہیں لیکن جہاں تک میرا خیال ہے کہ اگر میں تربت میں رہتی ہوں تو میں چاہیتی ہوں کہ میں کراچی یا کوئٹہ اسلام آباد لاہور جا کر تعلیم حاصل کروں، اور جو ان بڑے شہر وں میں پہلے سے اچھے کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ ملک سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہیں گے ۔

بلکہ والدین بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کسی اور شہر یا پاکستان سے باہر جا کر تعلیم حاصل کریں ، اگر ہم موازنہ کریں اپنے شہر کے یا ملک کے اسکولوں کا اور باہر کا تو ہم کوالٹی آف ایجوکیشن دیکھتے ہیں کہ تربت میں کسی اور بڑے شہر کو لیں ہمارے بچے کو ایک بہترین تعلیم مل سکتی ہے یا کسی بڑے شہر اور دوسرے ملک میں ۔

شہر سے یا ملک سے باہر جا کر ایک بچے کو ایک بہترین تعلیم کے علاؤہ ایک الگ ماحول ملے گا .اس کا نئے لوگوں سے ملنا اور ان کے رسم و رواج دیکھنا ان کو سمجھنے سے زیادہ بہتر تعلیم حاصل ہوگی اور اس سے بھی وہ بہت سی چیزیں سیکھ سکتا ہے اور فیصلہ کرنے میں بہتر ہوگا ، زمداریوں میں اس کا اضافہ ہوگا تو وہ اکیلے بہتر انداز میں ایک بہترین انداز میں تعلیم حاصل کرےگااس حوالے سے میں نے کچھ طالب علموں سے انٹرویو کیے جن کے جوابات کچھ اس طرح تھے.

ایک طالب علم کا کہنا تھا کہ میں اپنی بات کرتا ہوں کہ میں کیوں اپنے شہر کو چھوڑ کر کسی دوسرے شہر میں جا کر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں وجہ یہ ہے کہ جو سہولیات پڑھائی کے لئے ہمیں دوسرے بڑے شہر وں میں ملتی ہیں وہ ہمیں اپنے شہر میں نہیں ملتیں ،جس فیلڈ میں ہم جانا چاہتے ہیں وہ فیلڈ ہمیں ہمارے علاقے میں ملتی ہی نہیں ہیں اور کسی ایسی فیلڈ کو ہم بحالت مجبوری چن بھی لیں تو ایک ہماری انٹرسٹ سے ہٹ کر ہونے کی وجہ سے ہم تعلیم پر خاص توجہ نہیں دے پاتےاور جتنی کوشش ہم کرتے ہیں وہ بھی ایسے کہ نا ہونے کے برابر ہوتا ہے ، کیونکہ ہمارے اساتذہ اکرام ہمیں وقت بیس فیصد دیتے ہیں اور رزلٹ سو فیصد مانگتے ہیں ۔

لیکن جو محنت ہم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں وہ بھی نقل کی صورت میں تب کہیں جا کر ہم بمشکل پاس ہی ہو پاتے ہیں اور اس سے ہمارے والدین مطمعن نہیں ہو پاتے جب کہ ہمارے والدین اب اس بات کو اچھی طرح اپنے دل میں بٹھا چکے ہیں کہ ہماری اولاد تعلیم سو فیصد ہی حاصل کریں اور نمبر بھی ایک فیصد کم نا ہو ۔

تو اس لئے ہر طالب علم اپنی بساط کے مطابق اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے شہر سے باہر جاتا ہے یا ملک سے باہر جاتا ہےاور سب سے اچھی بات یہ کہ بلوچستان کے علاؤہ پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں نقل کا رجحان نا ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہاں کے کالجوں میں جو پڑھایا جاتا ہے وہی سلیبس میں آتا ہے اور امتحان بھی اسی سے لیا جاتا ہے اور اس طرح ہمیں ایکسٹرا محنت نہیں کرنی پڑتی اس لئے کہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شروعات سے محفوظ ہوتا ہے اور بس ایک نظر دیکھنے کی دیر ہوتی ہے اور سب دماغ میں آ جاتا ہے اور ہم اپنے امتحانات بہت اچھی طرح دے سکتے ہیں ۔

ایک خاص بات یہ کہ شہر سے باہر ہمیں ہماری پسند کا سبجیکٹ بھی با آسانی مل جاتاہے اور دوسری بات یہ کہ ہمارے نمبروں کے فیصد ہماری سمجھ کے مطابق ہی ہمیں ملتے ہیں یعنی جتنا چیزوں کو ہم سمجھتے ہیں اتنا ہی ہمیں ہماری محنت کا پھل ملتا ہے۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے میں والدین سے گزارش کرنا چاہوں گی کہ اپنے بچوں پر اتنا بوجھ نا ڈالیں کہ وہ خودکشی پر مجبور ہو جائیں جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل طالب علم انٹری ٹیسٹ وغیرہ میں ناکامی کی صورت میں خودکشی کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔

کیونکہ کہ ان کی زہن سازی بچپن سے کی جا رہی ہے کہ جیسا بھی ہو ڈاکٹر یا ڈی سی یا کوئی بڑا افسر بننا ہے تو دماغی طور پر وہ بچے شروع سے اسی بات کو اپنے اندر پال رہے ہوتے ہیں اور جب ایک یا دو بار کی ناکامی سے دو چار ہو جاتے ہیں تو زندگی کی بازی بھی ہارنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگاتے ہیں اور اس طرح ہمارا معاشرہ بدامنی کا شکار ہوتا جا رہا ہے. اس لئے ہم (اولاد ) اپنے والدین سے اس بات کی امید رکھتے ہیں کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم اب تک اپنے بچوں پر اپنی سوچ کو مسلط کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں. برائے کرم ہمیں یعنی اپنی اولاد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت حاصل کرنے کی اجازت بھی دیں تا کہ ہم کسی کا محتاج نا رہیں اپنی دستکاری سے، اپنے ہنر سے ایک دنیا کو فتح کر لیں .کیا ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ دنیا کے کامیاب ترین انسان کون ہیں؟ کیا انھوں نے سی ایس ایس کیا ہے ؟

اگر ہم موازنہ کریں خود کا اور ان کا تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بل گیٹس نے سی ایس ایس نہیں کیا ، مارک زنگر برگ نے سی ایس ایس نہیں کیا ، جیک ما نے سی ایس ایس نہیں کیا لیکن وہ دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں کیونکہ ان کے پاس ہنر ہے وہ تربیت یافتہ ہیں ان کے علاؤہ بھی دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی اور اب اپنی ہنرمندی کے سبب کامیاب ہیں ۔ تو اس لئے ہمیں بھی تعلیم ایک اچھا علم حاصل کرنے دیا جائے اور ہنر مندی سیکھنے کے مواقع فراہم کئے جائیں ، یہ ایک طالب علم کے خیالات کا مجموعہ ہے جو کہ میں نے مختصر آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے