خیبر پختون خواہ کی 75 سالہ تاریخ میں مذہبی اقلیتی خواتین کبھی بھی اسمبلی کا حصہ نہیں رہی ہیں اور ہمیشہ سےاس قانون ساز ادارے کےمنظرسے غائب ہیں، مخصوص نشستوں میں خواتین کی فہرستوں محروم رکھا گیا ہے جبکہ اقلیتی برادری کی فہرست میں بھی انہیں جگہ نہیں دی جاتی۔
قومی ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان میں مسیحی برادری کی تعداد 2700000تقریبا 1.8%) ہندو برادری کی تعداد تقریبا 1.6%)بدھ برادری 50000اورسکھ بردری کی تعداد30000 ہے۔ زرتشت/پارسی پچیس ہزار ہیں۔ الیکشن کمیشن سے آر ٹی ائی (رائٹ ٹوانفارمیشن )کے تحت حاصل کردہ جواب کے مطابق مخصوص نشستوں پر جمع کی گئی فہرستوں میں کسی سیاسی جماعت نے اقلیتی خاتون کا نام درج نہیں کیا۔
سال 2013, 2018 یا اس سے قبل کسی سیاسی جماعت نے صوبائی اسمبلی کی اقلیتی فہرست میں بھی خواتین کا نام نہیں دیا جبکہ قومی اسبلی کے لیے اقلیتی فہرست میں سال2013 میں مسلم لیگ (ن) نے مسیحی خاتون بی بی کا نام تیسرے نمبر پر د یا تھا۔
قبائلی اضلاع کو خیبر پختون خواہ کے ساتھ شامل ہونے کے بعد قبائلی اضلاع کے پہلے عام انتخابات جولائی 2019 میں جمیعت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ نے مسیحی برادری کی ثریا بی بی کو ضلع خیبر کی جنرل سیٹ پرٹکٹ دیا ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری فہرست کے مطابق صوبے میں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیںان کی تعداد تیرہ ہے۔ جن میں پشاور سے عوامی نیشنل پارٹی ،پاکستان عوامی انقلابی لیگ ،پاکستان راہ حق پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام نظریاتی پاکستان،تحریک درویشان پاکستان ،جماعت صو وفہ رجسٹرڈ ہیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان ایس نوشہرہ سے پاکستان امن تحریک اور پاکستان فلاحی تحریک صوابی سے ،تحریک صوبہ ہزارہ پاکستان ایبٹ آباد ،ہزارہ قومی محاذ پاکستان ایبٹ آباد، پاکستان تحریک شریعت پارٹی تخت بھائی مردان، عوامی ڈیموکریٹک پارٹی پاکستان لور دیر شامل ہیں۔
خیبر پختون خواہ اسمبلی میں کل نشستوں کی تعداد 145 ہے جبکہ خواتین کی نشستوں کی مخصوص تعداد 26اوراقلیتی نشستیں 6 ہیں ۔اسمبلی میں خواتین مخصوص نشستوں پر ہی خواتین اسمبلی کی رکن بن سکیں نیز چیدہ چیدہ خواتین ہی عام انتخابات میں جیت کر آئیں لیکن وہ کارکن خواتین نہیں تھیں ۔
1988 کے عام انتخابات میں بیگم نسیم ولی خان جن کا اپنا ایک خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا ،عوامی نیشنل پار ٹی س ان کا حلقہ جو کہ خیبر پختون خوا کی بڑی سیاسی جماعت میں شمار ہوتی ہیں۔ 1988 میں ان کی فیملی کے مرد جیلوں میں تھے لہذا وہ میدان عمل میں اتریں اور ان کا اپنا چارسدہ میں اپنا ووٹ بینک تھا اور ان کے خاندان کا نام تھا، جس کی وجہ سے انہیں اسمبلی میں لایا گیا۔
ان کےعلاوہ سال 2013 کےانتخابات میں حبیب الرحمن تنولی ایبٹ آباد سے قومی وطن پارٹی کے امیدوار تھے، وہ وفات پا گئے تو ان کی بیٹی غزالہ حبیب نے جنرل الیکشن لڑا اور وہ کامیاب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنیں۔
الیکشن 2018 میں چند روز پہلے الیکشن کی مہم کے دوران عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور امیدوار ہارون بلور ایک دھماکے میں خودکش دھماکے میں شہید ہو گئے تو ان کی اہلیہ جو کہ ہاؤس وائف تھی، نے ان کی سیٹ پر الیکشن لڑا اور کامیاب ہو کراسمبلی کا حصہ بن گئیں۔
اس طرح صرف خاندا نی سیاسی پس منظر رکھنے والی خواتین اسمبلی میں براہ راست ووٹ لے کر رکن اسمبلی منتخب ہوئیں اور کارکن خواتین براہ راست ووٹ لے کر رکن اسمبلی بننے کی بجائے مخصوص نشستوں کےسہارے ہی ایم پی اےبن پائی ہیں ۔ان حالا ت میں مذہبی اقلیتی خواتین دوہری محرومی کا شکار ہیں۔ خواتین اور پھر مذہبی اقلیت ہونے کے باعث دہری اقلیتی تعصبانہ رویئوں کا شکار ہیں ۔ لہذا ان کا تو وجود ہی صوبائی اسمبلی کے فلور پر نظر نہیں آتا اگرچہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں 2 نشستیں اقلیتی برادری کے لئے مختص ہوتی ہیں تاہم ان نشستوں پر بھی ہر مرتبہ سکھ، ہندو یا مسیحی برادری کے مرد حضرات ہی اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں۔
گزشتہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد دسمبر 2021 میں ہوا، جس میں خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے الیکشن کمشن کے اعدادوشمار کے مطابق خواتین کے لیے 2382 نشستیں مختص تھیں۔ جن میں 1458 خواتین نے باقاعدہ انتخابات میں حصہ لیا۔ تاہم جائزہ لیا جائے تو پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات میں مذہبی اقلیتی خواتین نے باقاعدہ الیکشن لڑا اور جیت ان کا مقدر بنی۔ ان میں اقلیتی برادری کی ایک خاتون پشاور سے، 2 چارسدہ سے اور ایک کوہاٹ سے شامل ہیں اگرچہ الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد صرف 4 تھی تاہم یہ ایک بہترین آ غاز ہے۔
دسمبر2021میں نیبرہڈ (این سی) 82 لنڈی ارباب پشاور سے آزاد حیثسیت سے اقلیتی کونسلر کی نشست پر لوکل گورنمنٹ الیکشن میں حصہ لے کر 1338ووٹ لے کر کامیاب ہونےوالی مسیحی خاتون شہلاکامران کا کہنا ہےکہ میں 12 سال سے سیاست کے میدان میں ہوں، ہر عام انتخابات میں اور بلدیاتی انتخا بات میں دوسروں کو کامیاب کرانے کے لیے کوششیں کرتی رہی لیکن مرد کسی صورت بھی ہماری اقلیتی خواتین کو آگے آنے نہیں دیتے تھے، وہ سمجھتےہیں کہ شاید خواتین ہماری جگہ لے لیں گی۔ نہ کسی سے ملنے دیتے تھے نہ آواز اٹھانے دیتے ، شہلا نے کہا کہ میں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی الیکشن میں جنرل سیٹ پر آزاد حیثیت سے جنرل کونسل کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی اب عام انتخابات 2024 میں بھی جنرل سیٹ پر الیکشن لڑ نا چاہی ہوں لیکن بہت سارے مسائل آتے ہیں ۔
خواتین کو عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک تومعاشی مسئلہ ہے کیونکہ خواتین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے اور پھر مسیحی خواتین تو اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ وہ اپنے یہ سارے اخراجات الیکشن کے برداشت کر سکیں، مہم چلا سکیں، سیاسی جماعتوں کو یا الیکشن کمیشن کو درکار دستاویزات کے حوالے سے اخراجات برداشت کر سکیں اور ان کی فیملی کے مردوں کو اگر الیکشن سے اپنا فائدہ نا ہو تووہ ان پر اتنا خرچہ کرنا برداشت نہیں کرتے ۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم عورت فائڈیشن کی پروگرام کوآرڈینیٹر صا ئمہ منیر کا کہناہے کہ ا قلیتی برادری سےتعلق رکھنے والی خواتین کی تعداد سیاست میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ عائلی قوانین ان کے موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ بہت زیادہ عدم مساوات اور تنزلی کا شکار ہیں لہذاان کا سیاست میں شرکت کرنا اور سیاست میں آنا اس لیے بہت ضروری ہے کہ جب یہ سیاست میں آئیں گی تو یہ یقینا اپنی بہنوں کے لیے ان عورتوں سے زیادہ کام کریں جو عام خواتین آتی ہیں وہ ان کے مسائل ان کی طرح نہیں سمجھ پاتیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مخصوص نشستوں پرصرف مسلمان عورتیں ہی آتی ہیں حالا نکہ اس تصور کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے اور لوگوں تک پہنچانے کی بھی ضرورت ہے کہ مخصوص نشستوں پر مسلم خواتین کا ہی حق نہیں بلکہ ہر پاکسانی عورت کا ہے۔
آئین پاکستان میں تمام مذہبی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کو تحفظ حاصل ہے۔ آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری برابر ہیں۔ آئین کےآرٹیکل 9 کے تحت ان کے جان ومال کا تحفظ سمیت آئین کے آرٹیکل 8 سے 28 تک 21 بنیادی انسانی حقوق دیئے گئے۔ آرٹیکل 15 کے تحت انہیں ہر طرح کی نقل وحرکت کی آزادی حاصل ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ترجمان عبدالجلیل جان نے کہا ہے کہ ہم ہمیشہ سے اقلیتی برادری کو بھی پاکستانی شہری سمجھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے ایک سیٹ جنرل نشست پر اقلیتی خاتون ثریا بی بی کو بھی ضلع خیبرکے علاقے لنڈی کوتل سے ٹکٹ دی تھی۔ اگر چہ وہ کامیاب نہیں ہو پائیں لیکن ہم نے انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جو اقلیتی خواتین ہیں انہوں نے کبھی بھی درخواست ہمیں نہیں دی اگر وہ درخواست دیں تو ہم انہیں اپنی خواتین کی فہرستوں میں یا پھر اقلیتی فہرستوں میں ضرور شامل کریں گے کیونکہ ان کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا دوسری عام پاکستانی خواتین کا ہے۔
آئندہ سال کہ انتخابات میں اگر کسی اقلیتی خاتون نے درخواست دی تو جنر ل الیکشن یا پھر مخصوص نشستوں پر ان کا نام ضرور شامل کریں گے اور انہیں نمائندگی دیں گے۔ الیکشن کمشنر پشاور کے انفارمیشن افیسر محمد سہیل کے مطابق اقلیتی خواتین کو سیاسی عمل کے دھارے میں لانے کے لیے الیکشن کمیشن اہم کردار ادا کر رہا ہے ، الیکشن ایکٹ 2017کےسیکشن47,48کے مطابق، میٹنگز میں اس طرف توجہ دی جا رہی ہے اور لوگوں میں سیاسی جماعتوں میں ووٹرز میں سیاسی شعور خواتین اقلیتی برادری کے حوالے سے اجاگر کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں سیاسی عمل میں لایا جا سکے۔
ہم جہاں جہاں بھی سیشن میں بھی اس حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ کس طرح سے محروم طبقات جن میں خواتین ہوں، ٹرانس کمیونٹی ہو یا اقلیتی برادری ہو یا افراد باہم معذوری ہوں، ان کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ پولنگ کے تمام مراحل کے دوران، پولنگ کے دوران پولنگ کے دن اور اس سے پہلے بطور ووٹر رجسٹریشن انہیں مواقع فراہم کرنےکاعمل مسلسل جاری ہے اور اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان ان پرخصوصی طور پر اس کے لیے کام کر رہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے تاکہ جب وہ الیکشن کے لئے مانگی گئی مخصوص نشستوں کا اندراج کریں تو صنفی مساوات کو مدنظر رکھیں اور اقلیتی امیدواروں کی فہرستوں میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی شامل کریں یا انہیں خواتین کے لئے مختص 22 نشتوں میں شامل کریں جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی مینارٹی ونگز کو جینڈر بیلنس کریں۔ خواتین کو پارٹی کے شعبہ خواتین میں بڑے عہدوں پر رکھیں جبکہ حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی ان کی سیاسی تربیت کی جائے تاکہ بحثیت پاکستانی شہری ان کے حالات میں بہتری آئے، انہیں قانونی طور پر تحفظ اور اعتماد حاصل ہو سکے۔