ایک ایسا پسماندہ علاقہ جہاں لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جہاں ایک عورت کی تعلیم معاشرے کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل ہے لوگ اس شعور سے عاری تھے۔ وہ علاقہ جو پہاڑوں میں گھرا ہونے کے ساتھ ساتھ اس روایتی سوچ سے بھی گھرا ہوا تھا کہ لڑکے ہی معاشرے اور نسلوں کو پروان چڑھانے کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ اس بات کو بھول کر کہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم ہے، جب کے ایک عورت کی تعلیم پورے معاشرے کی تعلیم ہے۔
انسانی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لئے تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور شعور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقہ نسواں معاشرے کا نصف حصہ ہیں۔ لہٰذا اس طبقہ نسواں کی تعلیم و تربیت معاشرے کی صلاح و فلاح کے لئے از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔
ایک تعلیم، یعنی زندگی گزارنے کے لئے بنیادی اوصاف کا شعور دینا، سکھانا، پڑھانا، معلومات بہم پہنچانا اور دوسرا لفظ ‘تربیت’ہے، جس سے مراد پرورش کرنا، اچھی عادات،یعنی فضائل اخلاق سکھانا اور رذائل اخلاق سے بچانا اور بچوں میں خدا خوفی اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔
قرآن کریم اور احادیث میں علم کی بے مثال فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حصولِ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔
قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّما يَخشَى اللَّهَ مِن عِبادِهِ العُلَمـٰؤُا…٢٨ ﴾ سورة فاطر
"درحقیقت اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔”
قبل از اسلام جاہلی معاشروں میں عورت ہر قسم کے حق سے محروم تھی۔ جہاں عورت زندگی کے حق سے ہی محروم ہو، وہاں اس کے پڑھنے لکھنے کے حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اسلام نے جہاں عورت کو اعلیٰ و ارفع مقام دیا وہاں اس پر ایک احسان یہ بھی فرمایا کہ اسے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر مکلف قرار دیا۔ چونکہ شریعت ِاسلامی کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں لہٰذا عورتوں کے لئے بھی حصولِ علم جو اُن کو بنیادی دینی اُمور کی تعلیم دے اور احکامِ اسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کاڈھنگ سکھائے وہ ان کے لئے فرضِ عین قرا ردیا گیا ہے۔ فرضِ عین سے مراد یہ ہے کہ اسے سیکھنا لازمی ہے اور اگر عورت یا مرد اس میں کوتاہی کرے تو وہ مجرم ہے۔
رسول ﷺ نے ابتدا ہی سے خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ فرمائی۔ آپ نے سورة البقرة کی آیات کے متعلق فرمایا:
"تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاوؐ۔” (سنن دارمی:۳۳۹۰)
رسولِ اکرم ﷺ کے تبلیغی مشن میں ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص ہوتا تھا۔ اس دن خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل پوچھتیں۔ نمازِ عید کے بعد آپ ان سے الگ سے خطاب کرتے۔ اُمہات الموٴمنین کو بھی آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں۔ پھر آپ نے خواتین کے لئے کتابت یعنی لکھنے کی بھی تاکید فرمائی۔ حضرت شفاء بنت عبداللہ لکھنا جانتی تھیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ تم اُمّ الموٴمنین حضرت حفصہ کو بھی لکھنا سکھا دو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت حفصہ کو بھی لکھنا سکھا دیا۔ آہستہ آہستہ خواتین میں لکھنے اور پڑھنے کا اہتمام اور ذوق و شوق بہت بڑھ گیا۔ عہد ِنبوی کے بعد خلفائے راشدین کے مبارک دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمر بن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا۔
خواتین یقینا معاشرے کی تباہی وبربادی کا ہراول دستہ ثابت ہوتی ہیں کہ اپنی گودوں میں پلنے والی اولاد کی تربیت ہی نہ کرسکیں۔
اس دور جدید میں بھی کچھ علاقے ابھی بھی اس سوچ سے محروم ہیں کے دینی و دنیوی لحاظ سے ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونا کس قدر اہم ہے اور ہزاروں فتنوں سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔
مزید براں اس پسماندہ سوچ میں ایک نوجوان ایسا اٹھا، جس پر شعور نے اپنا عکس چھوڑا۔ جس کے دل و دماغ میں اس نظریاتی سوچ نے جنم لیا کہ وہ پرانی روایات کے خلاف جا کر عورت کو اس کا پہلا تعلیمی حق ضرور دلوائے گا۔ ایک انسان کے پڑھے لکھے ہونے کی یہی نشانی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ انسان جس کے اندر تعلیم اعلی درجہ کی حد تک سرائیت کر جاتی ہے اسکی سوچ انقلابی ہو جاتی ہے۔
بالکل اسی انقلابی سوچ کا انسان، جسکا وجود وزیرستان کے لوگوں کے لئے ایک راہنما کی حیثت رکھتا ہے۔ بہادر خان نے ایک عزم کیا جسکو پورا کرنے کے لئے انہوں نےتحصیل شیواہ شمالی وزیرستان دروزندہ میں عافیہ اسلامک گرلز پبلک اسکول کے نام سے ایک اسکول کی سنگ بنیاد رکھی۔ بہادر خان اس اسکول میں اونر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جب کے معاون خصوصی میں ماسٹر سلیم مالک (گریجویٹ ) ہیں۔
شاکر خان صاحب مینجنگ ڈائریکٹر کی فہرست میں شامل ہیں۔ وزٹنگ پرنسپل عمر خان جنکی تعلیم ماسٹرز ہے۔ اس کے علاوہ دو فی میل اسٹاف ہیں، جن میں سے ایک کی تعلیم ایف ایس سی ہے جبكہ دوسری معلمہ عالمہ ہے جس کے پاس باقاعدہ اوقاف کا سرٹیفکیٹ موجود ہے۔
اس اسکول کی بنیاد 23مارچ 2021 میں رکھی گئی ، جب کے اسکی افتتاحی تقریب 10 مارچ 2023 میں منعقد کی گئی۔ تاحال عافیہ پبلک اسکول میں طلباء کی تعداد 70 ہے۔ بچوں کو محدود ذرائع کے ذریعہ سے ٹرانسپورٹ کی سہولیات کچھ حد تک میسر کی جارہی ہے۔ اسکول 3 کلاس رومز پر مشتمل ہے اور چوتھی تک کلاسز کا سلسلہ شروع ہے۔
میں اپنے اس کالم کے زریعہ سے آپ سب کو بہت سارے حقائق سے باور کروانا چاہتا ہوں۔ اس اسکول کی تعمیر میں کسی لوکل ایڈمنسٹریشن یا علاقائی سوسائٹی کی نہ ہی کوئی مالی سپورٹ ہے اور نہ ہی کوئی جسمانی کاوش۔
بہادر خان نے اپنی مدد آپ کے تحت وزیرستان کی بیٹیوں کے روشن مستقبل کے واسطے دن رات انتھک محنت کی تا کے اس معاشرے کو پڑھی لکھی باشعور نوجوان نسل دی جا سکے کیوں کے تعلیم نسواں ایک کامیاب معاشرے کے پروان چڑھنے کی ضامن ہے۔