بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ویسے بھی نومبر اور دسمبر کے مہینے میں ٹھنڈ پڑ جاتی ہے اور اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی گرمی کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ کبھی کبھار مون سون کی بارشیں بنجر اور غیر آباد زمینوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ضلع گوادر میں چونکہ کاشت کاری کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے اور بے وقت کی طوفانی بارشیں کاشت کاروں کی بندات کو بھی بہا کرلے جاتی ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں میں ضلع گوادر میں مون سون کی بارشوں کی وجہ سے بنجر اور غیر آباد زمینیں ضرور سیراب ہوئی ہیں اور ساتھ ساتھ کئی بندات ان بارشوں کی نذر ہوگئیں ۔ ضلع گوادر کے بیشتر لوگ ذرائع معاش کے لئے سمندر پر انحصار کرتے ہیں اور محدود تعداد میں علاقے کے لوگ کاشت کاری بھی کرتے ہیں۔ کاشت کاری کا دارومدار بارشوں پر ہوتا ہے کیونکہ علاقے میں زیر زمین پانی کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ضلع گوادر کے دیہی علاقوں کے بندات ماضی میں خشک سالی اور بارشیں بروقت نہ ہونے کی وجہ سے خشک اور بنجر ہوا کرتے تھے اور لہلاتی فصلوں کی جگہ درخت بھی پت چھڑ کے موسم کا مناظرہ پیش کرتے تھے۔
گزشتہ کچھ سالوں میں مون سون کی بارشوں نے سب کچھ بدل دیا۔ مون سون کی بارشیں نہ صرف اربن پلڈنگ کا باعث بن رہی ہیں، بلکہ دہیی علاقوں میں طوفانی بارشوں کی وجہ سے کسانوں کے بندات پانی میں بہہ کر انکی سالوں کی محنت چند منٹوں میں پانی میں بہہ گئیں ۔
نومبر کے آخری ہفتے میں لوگ یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ پسنی میں بارش ہوگی ۔ مگر بارش ایسی برسی کہ چند گھنٹے کے اندر اندر لوگوں کے گھر بھی پانی کے اندر ڈوب گئے اور شدید ژالہ باری کی وجہ سے زمین نے سفید چادر اوڑھ لی ، برف کے اولے گرتے گئے اور منٹوں میں اتنی برف جمع ہوگئی کہ جیسا بلوچستان کے سرد علاقوں میں سردیوں کے موسم میں برف باری ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور تغیرات سے بچاؤ کے لئے عالمی دنیا بلخصوص ترقی یافتہ ممالک نے کئی سالوں پہلے منصوبہ بندی شروع کرکے اقدامات شروع کئے ہیں کیونکہ دنیا کی نظر میں یہ ایک بڑا چیلنجز ہے اور اس سے جلد نمٹنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات اپنی جگہ آج تک مقامی لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ موسمی تبدیلیاں اور تغیرات کیا ہوتی ہیں بلکہ ہر چیز کو قدرت کا قانون سمجھ کر خاموش رہتے ہیں۔