کابل……افغان مفاہمتی عمل پر چار فریقی رابطہ گروپ نے کہا ہے کہ ہر قسم کی دہشت گردی پورے خطے اور دنیا کےلیے سنگین خطرہ ہے، دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائیوں پر بھی اتفاق کیا گیا۔
امریکا، چین، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی رابطہ گروپ کا دوسرا اجلاس کابل میں ہوا۔ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری،افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی، افغانستان میں امریکی سفیر مکین لے اور افغانستان کےلیے چین کے نمائندہ خصوصی شریک ہوئے۔
اجلاس میں طالبان گروپس کے ساتھ مذاکرات کے لائحہ عمل پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ مشترکہ اعلامیے کے مطابق چار فریقی مذاکرات میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے روڈ میپ پر بات کی گئی جس کا مقصد امن مذاکرات کےلیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ طالبان دھڑے رابط گروپ میں شامل چاروں ممالک کی خواہش اور حمایت کو سامنے رکھتے ہوئے افغان حکومت سے جلد مذاکرات شروع تا کہ افغان عوام کے خلاف سفاکانہ تشدد ختم کیا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ رابطہ گروپ کےدوستانہ اور باہمی احترام و تعاون پر مبنی تعلقات افغان امن، خطے کی سلامتی اور خوشحالی کےلیے ضروری ہیں، چار فریقی رابطہ گروپ کا آئندہ اجلاس 6فروری کو اسلام آباد میں ہو گا۔
افغانستان میں امن کے قیام اور اعتماد سازی کے لیے افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے ’کوارڈیلیٹرل کوآرڈینیشن گروپ‘ (کیو سی جی) کی کابل میں ہونے والی دوسری مجلس میں طالبان کے تمام گروہوں کو کہا گیا ہے کہ وہ افغان حکومت سے مذاکرات کریں۔
چہار فریقی گروپ کیو سی جی کی میٹنگ کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں دائمی امن کے لیے افغان حکومت کے ساتھ اپنے اختلافات سیاسی طریقے سے اور افغان عوام کی خواہشات کے مطابق حل کریں۔
مذاکرات میں امن کے روڈ میپ پر بھی پیش رفت ہوئی۔ اعلامیے کے مطابق روڈ میپ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسی فضا پیدا کی جائے جس سے افغانستان کی سربراہی میں اور افغانوں کی ملکیت میں افغان حکومت اور طالبان گروہوں کے درمیان امن مذاکرات شروع کرائے جا سکیں جن کا مقصد افغانستان اور خطے میں تشدد کا خاتمہ اور دائمی امن پیدا کرنا ہو۔
ان مذاکرات میں افغانستان کے نائب وزیرِ خارجہ حکمت خلیل کرزئی، پاکستان کے خارجہ سیکریٹری اعزاز احمد چوہدری، امریکہ میں افغانستان کمے سفیر مائیکل میکنلی اور افغانستان میں چین کے خصوصی ایلچی ڈینگ ژی جنگ نے حصہ لیا۔
کیو سی جی میں فیصلہ کیا گیا کہ گروپ کی اگلی میٹنگ چھ فروری کو اسلام آباد میں ہو گی۔
اس سے پہلے افغان وزیرِ خارجہ صلاح الدین ربانی نے امید ظاہر کی تھی کہ کابل مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا۔
صلاح الدین ربانی نے طالبان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امن کا پیغام قبول کریں اور مذاکرات کی میز پر آ جائیں ’کیونکہ وہ جتنا تاخیر کریں گے اتنا ہی افغانستان کے عوام کی نظروں میں گر جائیں گے۔‘
چاروں ممالک کے نمائندے ایک ہفتہ قبل بھی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اس عزم کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ہر فریق افغانستان میں قیام امن اور اعتماد سازی کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔
چاروں ممالک نے اپنی ذمہ داریوں کا اعادہ اسلام آباد میں چار ملکی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیے میں کیا تھا۔
افغان طالبان کو اسلام آباد میں ہونے والی بات چیت میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔
ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق چار ممالک نے اتفاق کیا کہ افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے جن باتوں پر ’ہارٹ آف ایشیا کانفرنس‘ میں اتفاق ہوا تھا ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
بیان کے مطابق ’ 9 دسمبر کو ہونے والے سہ فریقی اور چہار فریقی مذاکرات کو آگے بڑھاتے ہوئے چاروں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کی ان کوششوں کی مکمل حمایت جاری رکھی جائے گی جن کی قیادت افغانستان کے ہاتھ میں ہے تا کہ افغانستان اور خطے میں دیرپا امن اور استحکام قائم کیا جا سکے۔‘
مذاکرات میں شریک چاروں ممالک نے افغانستان میں جاری تنازعے کے خاتمے پر اتفاق کیا جس کی وجہ سے افغان عوام کو بےمعنی تشدد کا سامنا ہے اور پورے خطے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔‘