لکھے پڑھے ہوتے اگر …..

کیا پچیس کروڑ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی آبادی والے ملک پاکستان میں سب کچھ سوشل میڈیا پر ہی طے ہوتا ہے یا اکثریت کی اس تک رسائی ہے ؟

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مقبولیت (جو قبولیت کا متبادل نہیں ہے ) کے اعتبار سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی درجہ بندی کچھ یوں ہے : ١) فیس بک 2) وہاٹس اپپ 3) انسٹا گرام 4) تک ٹوک 5) لنکڈ ان .

ایک اور رپورٹ کے مطابق توتٹر/ایکس کے صارفین کی تعداد ساڑھے چار ملین ہے اور ایک موازنے والے گراف کے حساب سے بمشکل 4 فی صد اس تک رسائی رکھ کر استعمال کرتے ہیں.

گزشتہ چند ماہ سے اس کی بندش پر واویلا ہے . میں پابندی کے حق میں نہیں ہوں لیکن جو حلقے زیادہ شور مچا رہے ہیں ان کے ایجنڈا بردار ہونے کی بازگشت سن کر تشویش ہوتی ہے . ان سائٹس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں . تاہم اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے سے بھی ہم جیسے لوگ یا اکٹویسٹس گھبراتے نہیں کہ اس کو غلط معلومات پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے. سستا اور سنسنی خیز متن بکتا ہے. بر سبیل تذکرہ تامل ‘ہچکچاہٹ یا مفاد پرستی جس کو معاملہ فہمی یا بلوغت کی نشانی کہہ کر یا منوا کر بھی اپنی بزدلی اور بددیانتی پر پردہ ڈالا جاتا ہے بڑے لوگوں کی میراث یا مہارت ہے. مثال کے طور پر محترمہ ملالا یوسفزئی جن کو اچانک خیال آیا کہ اب ان سے فلسطینوں کی نسل کشی برداشت نہیں ہوگی.

ہماری ڈیٹا رازداری کا جو ستیا ناس ہورہا ہے اور اس کے جو خوف ناک نتائج ہوں گے اس کا ادر اک ابھی تک عام عوام کو کیا خواص کو نہیں ہے .

جب ترجیحات میں صرف میں محض اچھا اچھا دکھانا ہو اور سوشل میڈیا پر کامیاب پراجیکٹس’ کامیاب جوانوں’ کامیاب عورتوں ‘ وغیرہ کی نمائش ہو تو کس کو پڑی ہے کہ ہر محکمے میں چاہے وہ سرکاری ہے یا نجی جو کرپشن ہے اور جو ٹوکسٹی ہے اس کو سمجھا ‘ پرکھا جائے اور ازالہ بھی کیا جائے .

نشستن -گفتن- برخاستن ایک کامیاب فارمولا ہے .

اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیوں سر کھپاتی ہیں ؟ آپ کیوں لکھتی ہیں ایسی باتوں پر جن میں کوئی چسکا نہیں ہے ؟ کون پڑھتا ہے ؟ ایسے بھی ہیں جو بہت قدر کرتے ہیں اور خلوص سے استفسار کرتے ہیں کہ آپ فلاں سائٹ یا فلاں اخبار کے لئیے کیوں نہیں لکھتیں ؟ ان سوالوں کے جواب تو ہیں لیکن اس بات سے آگاہ ہوں کہ میں اتنی لکھی پڑھی نہیں ہوں کہ ان کا جواب اس ڈھنگ سے دے سکوں کہ مدعا سمجھ بھی آجائے اور جان بھی بچی رہے . میرے جیسے لوگوں کو نہ تو لبرلز لبرل مانتے ہیں نہ الیٹ فیمنسٹ خواتین شا وٹ آاوٹ دیتی ہیں اور قدامت پسند تو ویسے ہی تپے رہتے ہیں اور گُناہ گار ‘بگڑی ہوئی- جہنم کا میٹریل سمجھتے ہیں .

ان حالات میں بہتر یہی ہے کہ زیادہ بہادری سے گریز کیا جائے .
ہلکی پھلکی بکواس کی جائے.

آج کل میں بھی پرانے گانوں میں دل لگا رہی ہوں .

ایک پاکستانی فلمی گانا ہے اختر یوسف نے لکھا تھا ظاہر ہے غیر سیاسی ہے اور اس کا اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے. کسی قسم کی مماثلت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے.
بول ہیں:
لکھے پڑھے ہوتے اگر -تو تم کو خط لکھتے – اس خط میں تمہیں ہم کیا کیا لکھنے کے بہانے لکھتے – جو بات ابھی تک تم سے -گھبرا کے بول نہ پائے – …….
——————-

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے