سعودی عرب سے پاکستانی مسلمانوں کو ایک خاص انسیت اور عقیدت ہے . پھر سعودی عرب ایک بڑے بھائی کی طرح میرے بدنصیب ملک کی مدد بھی کرتا رہتا ہے . سماجی ترقی کی طالبہ ہونے کے ناطے اس ملک میں میری بھی دلچسپی رہی ہے . خبروں میں اور خاص طور پر مغربی حلقوں میں اس ملک کو انسانی اور نسوانی حقوق کے حوالوں سے تنقید کا بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے. حال ہی میں فریڈم ہاؤس کے 2024 کے "فریڈم ان دی ورلڈ” کے مطالعے(جو کہ دنیا بھر میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کی سالانہ تحقیق ہے) میں سعودی عرب کو "آزاد نہیں” قرار دیا گیا ہے. اس طرح کے جائزے بحث اور غور طلب ہیں . لیکن اس حقیقت سے کنگڈم کا کوئی سخت سے سخت ناقد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ سعودیہ بدل رہا ہے اور لبرل ہو رہا ہے اور یہ تبدیلیاں جن کی مرہون منّت ہیں وہ شخصیت ہیں ” پرنس محمّد بن سلمان ” جو ایم بی ایس کے مخفف سے مقبول ہیں.کیا وہ ماکیاویلی ہیں یا مغرب کے کسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں؟ یہ سب کچھ تو مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہے . تاہم جو بات ریکارڈ سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت سعودی عرب کو اقوام متحدہ نے انسانی ترقی کی عالمی رینکنگ میں 191 ممالک کی فہرست میں 37ویں مقام پر رکھا ہے .انسانی ترقی کا اشاریہ (ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس ) ایک خلاصہ اشاریہ ہے جو ممالک کی تین جہات پر جانچ کرتا ہے: صحت، تعلیم اور معیار زندگی۔
اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2022 میں سعودی عرب کو 146 ممالک میں سے 127ویں نمبر پر رکھا گیا۔ تاہم، ورلڈ بینک کے 2021 کے "ویمن، بزنس، اینڈ دی لا” انڈیکس میں، سعودی عرب نے 100 میں سے 80 پوائنٹس حاصل کیے، جو کہ عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔
پاکستان جو بظاہر سعودی عرب کے مقابلے میں زیادہ ماڈرن یا کم پابندیوں والا ملک نظر آتا ہے، اس طرح کی تمام فہرستوں میں سعودی عرب سے کہیں پیچھے ہے .
سعودی عرب اب اپنی روایتی قدامت پسندی سے بڑی تیزی سے پیچھا چھڑا رہا ہے . سبب چاہے کچھ بھی ہو لیکن مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس ملک کے قومی ترقیاتی منصوبے وژن ٢٠٣٠ کی اصلاحات کے تحت جو تبدیلیاں آ رہی ہیں،ان کا سب سے زیادہ فائدہ خواتین کو پہنچ رہا ہے. اس وژن کا مرکز سعودی خواتین کی معیشت میں شراکت اور سماجی ترقی میں حصہ لینا ہے، جس کے تحت صنفی تفریق کے اقدامات کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ سعودی خواتین کو بااختیار بنایا جا سکے.
سعودی خواتین کی کاروباری صلاحیت کو بھی بڑھتی ہوئی شناخت مل رہی ہے۔ پہلی بار سعودی خواتین کو کچھ اسٹیڈیمز میں بغیر کسی ساتھی کے داخل ہونے اور کھیلوں کے پروگراموں میں شرکت کی "اجازت” دی گئی ہے۔ اگرچہ انہیں فیملی سیکشن میں بیٹھنا پڑتا ہے، جو مردوں کے لیے مخصوص ہجوم سے الگ ہوتا ہے، یہ خواتین کے حقوق کی طرف ایک اور اہم قدم ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ملک مزید اور مزید صنفی اختلاط کے ثقافتی اور تفریحی پروگراموں کی میزبانی کر رہا ہے.
جون 2018 میں خواتین کی ڈرائیونگ پر طویل عرصے سے پابندی ختم کر دی گئی تھی جو صنفی مساوات کے لیے ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس سے پہلے، سعودی خواتین ڈرائیوروں، ٹیکسیوں یا مرد رشتہ داروں پر انحصار کرتی تھیں۔ ان تبدیلیوں کے پیچھے اقتصادی اثرات گہرے ہیں، کیونکہ یہ بلاشبہ سعودی خواتین کو لیبر مارکیٹ میں شامل ہونے کے لیے بڑی رکاوٹیں دور کرتے ہیں اور ان کی خرچ کرنے کی طاقت میں نمایاں اضافہ کرتے ہیں.
خواتین کے بدلتے ہوئے اقتصادی کردار کے علاوہ، سعودی عرب سماجی ماڈرنزم کی طرف بھی بڑھ رہا ہے ۔ گزشتہ مارچ میں سی بی ایس ٹیلی ویژن کے ساتھ ایک انٹرویو میں، سعودی ولی عہد نے کہا کہ اسکارف اور عبایہ سعودی خواتین کے لیے لازمی نہیں ہے۔ سعودی عرب میں خواتین کو دہائیوں سے عوامی مقامات پر عبایہ (عام طور پر سیاہ) پہننے اور اپنے بالوں اور چہروں کو ڈھانپنے کی ضرورت تھی، جو مذہبی پولیس کی طرف سے سختی سے نافذ کی گئی تھی۔ خواتین کے لباس کے کوڈ میں نرمی نے فیشن کے ذاتی اظہار کے لیے جگہ فراہم کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، سعودی خواتین نے روایتی سیاہ عبایہ کے برعکس زیادہ رنگین عبایہ پہننا شروع کر دیا ہے۔ عبایہ اب مختلف رنگوں، شیلیوں، کپڑوں اور نمونوں میں دستیاب ہیں۔ جدہ میں، جو ایک زیادہ آرام دہ اور کاسموپولیٹن کردار والا شہر ہے، کھلی عبایہ جو نیچے کے عام اسٹریٹ کپڑوں کو ظاہر کرتی ہیں، زیادہ عام ہوتی جا رہی ہیں۔
مجھے احساس ہے کہ پاکستان کے بہت سے مرد اور خواتین مسلمانوں کو بنیادی انسانی شہری اور اسلامی حقوق (جو میرے لیے تو متضاد نہیں ہیں) ان کی ریاست کی طرف سے فراہمی پر شک ،شبہات ، غصّہ اور غم بھی ہو گا . شائد ان کو اس بات کا احساس نہیں کہ ریاستی پالیسی کی ہمدلی مجھ جیسی عورتوں کی زندگی میں بھی کیا تبدیلی لاتی ہے ؟ مجھ جیسی عورتیں —جن کو فیمنسٹ گالی بنا کر کہا جاتا ہے، صرف سماجی اور اقتصادی جدت اور جدیدیت پر خوش نہیں ہیں بلکہ ہماری ایک شناخت دین بھی ہے اور ہمارا ایک حق دینوی فرائض اور اراکین کو ادا کرنے کی سہولیات کا ہونا بھی ہے .
٢٠٢٣ میں سعودی عرب نے اس پرانے قانون میں تبدیلی کی جو اکیلی خواتین کو حج کرنے کے دوران مرد رشتہ دار کے ساتھ جانے کی پابند کرتی تھی۔ اس تبدیلی نے ہزاروں اکیلی مسلم خواتین کی حج میں شرکت کو ممکن بنایا ہے۔ ان نئے قواعد کا اطلاق صرف حج کے دوران نہیں ہوتا۔ خواتین اب عمرہ یا دیگر روٹین کی زیارات جو سال کے کسی بھی وقت اسلامی مقدس مقامات پر کی جا سکتی ہیں، بغیر کسی "محرم” یا مرد سرپرست کے کر سکتی ہیں۔
خواتین کے اب تنہا سفر کر سکنے کا یہ اقدام سعودی عرب کی سیاسی قیادت کی طرف سے مملکت میں خواتین کے حقوق کو بہتر بنانے کی مہم کا حصہ ہے، جسے مغربی معاشرے جابرانہ سمجھتے ہیں۔ امید ہے کہ ہمارے ملک میں بھی اس تبدیلی کو کھلے عام قبولیت اور مقبولیت ملے گی .
میں نے اس پالیسی کی بدولت گذشستہ سال بغیر محرم کے حج ادا کیا . مکّہ میں الله کے گھر کا طواف کیا اور مدینہ میں نبی پاک صلى الله عليه وآله وسلم کے روضہ مبارک پر حاضری دی . الله کا جتنا شکر کروں کم ہے . الله کا شکر تو بغیر کسی وجہ کے بھی کرنا چاہیے کیونکہ الله مالک کل کائنات ہے اور ہمارا اصلی باس ہے . اگر دنیا داری کی بات کی جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے” شہزادے کا شکریہ” !
ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئیے بھی ایک آواز بن رہی ہیں ۔