مذہبی رواداری اور میری کہانی

پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی جانب سے میڈیا موثران کے نوجوانوں کو معاشرے میں امن کے قیام کے لیے دو سال تک تربیت دی گئی ۔ اس کا اہم مقصد میڈیا کے ذریعے بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی پہ کام کر کے امن کو کیسے فروغ دیا جا سکتا ہے بنیادی نکتہ تھا۔ میں نے اس پلیٹ فارم سے بین المذاہب ہم آہنگی پہ کام شروع کیا سب سے پہلے میں نے اپنی کہانی لکھی کہ اس پروگرام میں شامل ہونے سے پہلے میں اور میرے دیگر دوستوں کا نکتہ نظر کیا تھا اور پھر اس میں کیا تبدیلی آئی۔

ان کہانیوں کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق ، ریاست کے قوانین اور نفاذ، امن ، رواداری ، مساوات کی تعلیم ہم نے حاصل کی تھی لیکن ہم کسی بھی ایسی ایکٹیویٹی میں شمولیت اختیار کرنے سے جھجک محسوس کرتے تھے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جب ہم اس پہ کام شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے قریبی عزیز و اقارب ، دوست احباب کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حالانکہ ہمارے نظریات ، عقائد تو تبدیل نہیں ہوتے ہیں بلکہ صرف ہم اسلامی تعلیمات اور ریاست کے قوانین کے مطابق امن ، رواداری و مساوات کے لیے ایک کوشش کا آغاز کرتے ہیں۔

اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے مزید سمجھنے اور جاننے کے لیے ادارہ امن و تعلیم کی ورکشاپ میں بھرپور شرکت کی، اور میں ذاتی طور ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا جنہوں نے بلا تفریق انسانیت کی خدمت کی، آخر کار میں نے چند ایسے نام تلاش کر لیے۔ جن میں عبد الستار ایدھی ، ڈاکٹر روتھ فاؤ ، سر گنگا رام ، مدر ٹریسا ، گلاب دیوی شامل ہیں ، ان ہیروز کی خدمات پہ میں ایک خوب صورت فیچر تحریر کرنے میں کامیاب ہو گیا، مندرجہ بالا شخصیات نے اپنی زندگی غریبوں اور بے کسوں کی خدمت کے لیے وقف کر کے بلا تخصیص رنگ و نسل اور مذہب وقوم ،بیمار اور بے سہارا افراد کی خدمت کی۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

نوجوان نسل میں سے جن دوستوں نے ان کی خدمات کا مطالعہ کیا انہوں نے ان ہیروز کے ساتھ ساتھ مجھے بھی شاباش دی کہ آپ نے بہت خوب صورت طریقے سے ہمیں ان شخصیات سے متعارف کروایا، ایسے کئی حوصلہ افزاء پیغامات مجھے اور نشر و اشاعت کے اداروں کو موصول ہوئے ۔ جس سے مجھے اپنے کام کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ مزید ٹریننگ کے بعد میں ایک نئے اُفق کی تلاش کے لیے نکل پڑا جس میں مجھے بین المذاھب ہم آہنگی کی کسی خوب صورت مثال کی تلاش تھی، آخرکار کراچی کے علاقے کلفٹن میں مجھے ایسی ہی ایک جگہ مل گئی جہاں ایک تاریخی مندر (شیو مندر) اور مدینہ مسجد کلفٹن قریب ، قریب واقع ہیں مل گئیں ۔

میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ یہاں مندر اور مسجد کا مطالعاتی دورہ کیا، جس میں طرفین سے مختلف سوالات پوچھنے کے بعد ان کے جوابات اور اس خوب صورت مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک اور کہانی لکھنے میں کامیاب رہا، اس مثال میں خلاصہ کلام یہ تھا کہ ”دو الگ الگ مذاہب کی عبادت گاہیں بالکل ساتھ ساتھ واقع ہیں لیکن آج تک یہاں کوئی نا خوش گوار واقع پیش نہیں آیا , بلکہ مندر میں موجود انتظامیہ نے ہمیں بتایا، کہ ہمارے تہوار کے دنوں میں مسجد کی انتظامیہ ہمارے ساتھ اس حد تک تعاون کرتی ہے، کہ دور دراز سے آئے ہوئے ہمارے لوگوں کے لیے نہ صرف اپنے واش روم استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہے بلکہ پانی اور اور دیگر سہولیات بھی جو ممکن ہو سکیں تعاون کرتے ہیں۔ ہمیں حیرت اور خوشی کے ان لمحات میں ایک خوب صورت پیغام بھی مل چکا تھا۔ جسے ہم نے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا عہد کیا۔ اس مثال کو سامنے رکھ کر ہم نے ذرائع و ابلاغ کے زیادہ سے زیادہ نشریاتی اداروں مثلاً روزنامہ مشرق لاہور، روزنامہ قومی اتحاد کراچی ، آئی بی سی اردو و دیگر جگہوں پر پبلیش کروایا ۔

اگلی ورکشاپ میں ہمیں ڈاکٹر محمد حسین، غلام مرتضیٰ، حسیب اقبال ، سمیر علی اور دیگر ماہرین نے اسلام ، جمہوریت اور آئین پاکستان کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی اور دور دراز علاقوں میں حقوق کی پامالی کا ڈیٹا اکھٹا کرنے، ریسرچ کرنے کا طریقہ کار پینل ڈسکشن میں بتایا، جسے سامنے رکھتے ہوئے میں نے دو مزید مضامین کی تیاری شروع کر دی جس میں پہلے صوبہ سندھ میں اقلیتوں کے مسائل اور ان کا ممکنہ حل جب کہ دوسرا بین المذاہب ہم آہنگی کی موجودہ دور میں ضرورت و اہمیت تھی۔ اس ریسرچ اور مختلف مطالعاتی دوروں کے بعد میں نے ان مضامین کو بھی مکمل کر لیا اور مختلف حالات میں مسائل اور ان کے حل کی تجاویز شامل کیں۔

ان دو سال میں ، اس پروجیکٹ کے ذریعے نا صرف میرے علم میں اضافہ ہوا بلکہ مجھے اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے معاشرے میں امن ، رواداری و مساوات کے لیے کام کرنے میں بہت فائدہ پہنچا۔ نشر و اشاعت کے اداروں کے ذریعے میرا پیغام ایک محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد لوگوں تک پہنچا۔ میں نے اپنے پیغام کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کے علاوہ بین المسالک ہم آہنگی، سماجی ہم آہنگی، اور صنفی مساوات کے لیے بھی بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔

اس تربیتی پروگرام کے اختتام میں بین المذاہب ہم آہنگی، اقلیتوں کے دین اسلام میں حقوق اور آئین پاکستان کے نفاذ کو اپنی اپنی کمیونٹیز میں آگاہی اور سماجی ترقی کے ذریعے تعمیری تبدیلی لانے کے لیے عہد کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے