باتونی پہاڑ

شہر سے کئی میل دور، چار سو فلک بوس پہاڑوں کے آغوش میں ایک خاموش وادی ہے۔ اطراف میں چار جہت پھیلا پہاڑ فصیلیں کھڑی کیے جھانک رہا ہے۔ اس پہاڑ کے دامن میں چرواہے نے ایک خیمہ لگایا ہے اور شہر بسایا ہے۔

گولین چترال سے کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں گولین ہائڈرو پاور پراجیکٹ بنا ہے جو پورے چترال کو بجلی دے رہا ہے۔ جن باتونی پہاڑوں کی بات ہو رہی ہے، یہ گولین گاؤں سے کچھ دو گھنٹے کی دوری پر ہیں۔ اس مقام کا نام ہے جنگال یعنی جنگل۔

شام کا سماں تھا کہ ہم گاؤں سے نکلے۔ خیال تھا کچھ دور جائیں گے تو کسی چرواہے کی جھونپڑی ملے گی۔ رات گزار کر صبح دم پہاڑی چوٹی سرکریں گے اور آسمان کو چھونے چلیں گے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے سڑک کا نام نشان ہی چھوڑا ہے۔ ہم غیر متوقع طور پر لیٹ ہوگئے۔ رات گہری ہونے لگی تو راستہ بھول گئے۔ برفیلے پہاڑوں کے دامن سے نکل کر آنے والے نالوں اور چشموں سے جنم لیتی، کروٹ، بدلتی سارنگ بجاتی ندیا پورے میدان میں پھیل کر سڑک کے نقش و نشاں مٹا چکی ہے۔ اب پانچ سو گز دور بہہ رہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد رستہ اور سمت بدل لے گی۔ اس وقت وادی اپنے شانوں پر سیاہ زلفیں پھیلا رہی ہے۔ چاند پہاڑی چوٹی کی اوٹ میں نقاب اٹھا رہا ہے۔ چاندنی سے کچھ لمحے پہلے وادی مسکان لبوں کی طرح جلوے بکھیر رہی ہے۔

رات کا سناٹا اپنے آپ سے محوِ کلام ہے۔ پہاڑ سرگوشی کر رہے ہیں۔ ندی زندگی کی مانند، بھٹکتی، بہکتی، سر پتھروں پہ پٹکتی رواں دواں ہے۔ ہم بھکٹتے بھٹکتے ہمت ہار بیٹھے ہیں۔سرکش ندی نے ہر سمت رستے بنا لیے ہیں۔ کہاں ہیں رستے؟ کہاں جانا ہے؟ جیسے کوئی مسافر کسی وسیع صحرا میں کھو گیا ہو، ہم بیٹھے نیلگوں آسمان کو تک رہے ہیں۔ ماہِ تمام پہاڑی چوٹی پر بے حجابانہ آن کھڑا ہے۔

دور اک جھونپڑی میں روشنی نمودار ہوئی۔ ایک بار نظر آئی اور پھر گھاٹی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ ہم بیٹھ گئے۔ سراب تھا۔ مگر دلِ یاس انگیز کو اک آس سی ملی تھی۔ شمعِ امید کی کرن نظر آئی تھی۔ نظریں وہیں اٹکی تھیں۔ خوف دامن گیر تھا کہ رات اس بیاباں میں کھلے آسماں تلے کیسے بسر ہوگی۔ نہ آس پاس کوئی بستی۔ نہ بشر نہ بشر کا نام۔ ایک بار پھر وہی روشنی بجھتی نظر آئی۔ کوئی عصا نہ تھا۔ کوئی یدِ بیضا نہ تھا۔ پھر بھی روشنی دیکھ کر اس جانب کھنچے چلے گئے۔ چرواہے نے ہمیں آلیا، اس خیمے میں لے آیا ہے۔

دامن میں کوہ کے اس جھومپڑی نما خیمے میں زندگی پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ بیک وقت دو شہنائیاں بج رہی ہیں۔ ندیا جب سانس لینے کو رکتی ہے تو وہ تان ٹوٹتی ہے، تب خیمے کے ساتھ بہتا پرنالہ ساز چھیڑ دیتا ہے۔ کبھی ایک ساز بلند ہوتا ہے پھر دوسرا۔ پشِ منظر میں اک مدہوش سی نیچرل دھن ہے۔ یہ عجب سماں بندها ہے۔ زندگی ان چند لمحوں میں سمٹ آئی ہے۔

عادت ہے کہ رات کو دو ایک بار اٹھتا ہوں۔ رات کو دیر گئے سوئے تھے۔ پانچ بجے ہوں گے کہ خیمے سے باہر نکلا۔ سپیدہ سحر بہت دیکھا ہے۔ بچپن ایسے ہی پہاڑوں میں یعنی خانہ بدوشی میں بیتا ہے۔ مگر آج کچھ الگ ہی منظر تھا۔ اس منظر کی تاب نہ لا کر میں جلد خیمے میں گھس آیا۔ دل کا پیالہ کچھ گداز احساسات سے بھر آیا۔ فطرت نے حسن و کمال کا جو جام اچھالا تھا، میرا ظرف اتنا نہ تھا۔ کوئی شاعر ہوتا، کوئی مصور ہوتا، کوئی آرٹسٹ ہوتا۔

برف پوش پہاڑی چوٹیاں ہوں یا سنگلاخ چٹانیں، ان میں ایک بات یکساں دیکھی ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ ان سے گھنٹوں باتیں کر سکتے ہیں۔ یہ آپ سے ہر دم مخاطب ہیں۔ نہیں معلوم یہ ذاتی تاثر آپ کو کتنا مضحکہ خیز یا افسانوی لگے۔ قلبی واردات اور ذاتی تاثرات کی وضاحت بھی کیا دیں۔ پُر کیف فضاؤں سے پھوٹتی سرشاری کہہ رہی ہے، عقل و شعور سے آگے بھی ایک پُر اسرار کائنات موجود ہے۔

میرا دوست فضل ودود میرے ساتھ ہے۔ ہم دونوں پیچھے رہ گئے ہیں اور ساتھی آگے نکل گئے ہیں۔ فضل ایک چٹان کو دیکھ کر کہہ رہا ہے کہ برو یہ کس سنگ تراش کے دستِ ہنر کا کمال ہے؟ میں کہہ رہا ہوں اس کی جانب دیکھے بن سنو۔ یہ کچھ کہہ رہا ہے۔ دیکھنا ہے تو اس کی گُل افشانئی گفتار دیکھ۔ اس چٹان پر عربی عبائے کی طرح سیاه مائل پٹیاں نقش و نگار بناتی چلی گئی ہیں۔ سورج کی آخری کرنوں نے اس کو آئینہ خانہ بنا رکھا ہے۔مگر اس کی سرگوشی اور خود کلامی اس کے ظاہری بناؤ سنگھار اور فطری حنا بندی سے بڑھ کر ہیں۔ جیسے لباسِ مجاز میں کوئی کھڑا گوشِ حق نیوش سے اپنا تعارف کر رہا ہے۔ جیسے گڈریا گم کردہ بکری کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک ہار کر پتھر کے سرہانے پر سر رکھ سو جائے اور نیم خوابی میں بکری کے ممیانے کی آواز سنے۔ اک دریافت، اک ایجاد کی سی سرخوشی سے اٹھ کر چاروں اطراف مضطرب نگاہوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ جیسے کوہِ طور پر مدھم سروں میں کوئی بحث چھڑی ہے۔ کوئی ارنی کہتا ہے تو لن ترانی سنتا ہے۔

ساتھی دور نکل گئے ہیں۔ ہم رکے ہیں۔ فضل اس باتونی پہاڑ کو دیکھ رہا ہے۔ میں کان لگائے سن رہا ہوں۔ احساس ہوتا ہے تھوڑی دیر پہلے یہ خود کلامی کے انداز میں سرگوشی کر رہا تھا۔ اب یہ مجھ سے مخاطب ہو رہا ہے۔ یہ باتونی پہاڑ۔ ایک بات پلے نہیں پڑی۔ ہر بات پر سر ہلا رہا ہوں۔ مسکرا رہا ہوں۔ کچھ اس پہاڑ کی باتوں پر۔ کچھ اپنے وہم اور اس دیوانگئی شوق پر۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے