ذیادہ تر پختونوں کو جو بات نہیں پتہ وہ یہ کہ پختون اور افغان میں فرق ہے ۔ افغان افغانستان کے شہری کو کہتے ہیں ۔ اور افغان لفظ طنزا” ایرانیوں نے ان ازبک ، ترکمن اور پشتون قبائل پر رکھا جو جنگجو قسم کے لوگ تھے اور جو سرحدی علاقوں میں ایرانی سپاہیوں سے اکثر لڑ پڑتے ۔ اس روز روز کی لڑائی جھگڑے سے تنگ آکر انھوں نے ان کا نام فارسی کے لفظ آہ اور فغاں کو یکجا کرکے افغان رکھ دیا (یہ بات تفصیل کے ساتھ تاریخ فرشتہ میں بیان کی گئی ہے )۔ چونکہ اس زمانے میں اس سارے ریجن میں فارسی زبان کا طوطی بولتا تھا اس لیے اس جوریٹو لفظ کو کچھ ہی عرصے میں قبولیت عام حاصل ہو گئی اور افغانستان سے ہوتا ہوا یہاں خیبر پختون خواہ جو ہزاروں سال سے متحدہ ہند کا کلیدی حصہ رہا ہے ۔۔۔ کہ پشتونوں میں بھی غلط العام ہو گیا ۔
اس کے مقابلے میں پختون یا پشتون ہزاروں سال سے دریائے سندھ کی دھرتی متحدہ ہند میں گندھارا تہذیب کے پشتیان بلکہ بیک بون رہے ہیں ۔ یہ مقامی لوگ ہیں جس میں وقت کے ساتھ ساتھ سینٹرل ایشیا اور دیگر فارن علاقوں سے لوگ آکر بستے اور مکس ہوتے رہے ۔ کم لوگوں کو پتہ ہے کہ دریائے سندھ کا نام اصل میں پشتو کے لفظ ” سیند” سے ہے جو دریا کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح افغانستان بھی کوئی تاریخی ملک نہیں بلکہ موجودہ افغانستان کا بڑا حصہ گندھارا یعنی ہند یا پختون خواہ کا ٹرائل بیلٹ تھا ۔اور باقی حصہ ایران کا ٹرائل بیلٹ تھا ۔ گندھار یا قندھار کا نام بھی گندھارا کے نام پر رکھا گیا،۔ ان قبائلی علاقوں میں وقتا” فوقتا” سینٹرل ایشیائی ملکوں سے ازبک ، تاجک ،منگول یا مغل اور ترکمن آ کر اپنی چھوٹی چھوٹی بادشاہتیں قائم کرتے رہے ۔ لیکن ان میں سے جب بھی کوئی ذیادہ طاقت پکڑتا وہ زرخیز اور سرسبز ہند پر حملہ آور ہوتا ۔ اور انکا سب سے پہلی جنگ ہند کے علاقے پشاور یا اس کے مضافات میں ہی میں پیش آتی ۔
احمد شاہ ابدالی کی پیدائش ملتان کی ہے (افغان اجکل اس جائے پیدائش کو ہرات سے بدلنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ) ۔ یہ ایران کی فوج میں کمانڈر تھا ۔ اس نے پہلی بار سوچا کہ افغانستان کے اس منقسم ٹرائبل علاقے کو ایک ملک کی شکل دی جائے ۔ اس نے ایران سے بغاوت کرکے ان افغان علاقوں پر ایک ایک کرکے قبضہ جمایا اور اس کو ایک ملک بنا دیا ۔ چونکہ پاکستانی علاقے میں اسکی رشتہ دارہاں تھیں اور یہاں کے پختون اس کی مکمل سپورٹ میں تھے اس لیے یہاں آکر پختونخواہ اور پنجاب کے علاقوں کا قبضہ لینا اس کے لیے کچھ مشکل ثابت نہ ہوا ۔
یعنی تاریخ میں یہ پہلی بار اٹھارویں صدی میں ہوا کہ افغان علاقے میں ایک نیا ملک بنا جسکا مکمل کنٹرول اور حکومت پشتونوں کے پاس تھی اور انھوں نے اپنے اس حکومت کو گندھارا کے پشتونوں کے تعاون سے ہند کے علاقوں تک ایکسٹینڈ کیا۔ اور یہ پختون خواہ اور پنجاب ہی کے پختون اور پنجابی تھے جو احمد شاہ ابدالی کی فوج کا ہراول دستہ تھے جب انھوں نے شاہ ولی اللہ کے خط پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کے نام پر مرہٹوں کے ساتھ پانی پت میں جنگ لڑی اور انھیں عبرتناک شکست دی ۔
آجکل جو قوم پرست پشتون احمد شاہ ابدالی پر بہت فخر کرتے ہیں انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ احمد شاه بابا کی لڑائ قوم پرستی کے نام پر نہیں تھی بلکہ الله کے لیے اور اسلام کے نام پر تھی اور انکی فوج میں بڑی تعداد میں نان پختون بھی تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ سکھوں نے اور اسکے بعد انگریز احمد شاہ بابا کے نام کو بدنام کرنے کے لیے انکے خلاف بہت سخت پراپگنڈہ پھیلایا اور کئی طرح کی فیک نیوز پھیلائی حتی کے مقامی فولک لور میں جعلی ناموں سے شاعری تخلیق کرکے پنجابیوں کی آنے والی نسلوں کو ان سے بد ظن کیا۔ لیکن تاریخی حقیقتیں فیک نیوز سے نہیں بدلتیں۔
اب آتے ہیں conclusion.کی طرف ۔ یہ لغو دعوی کہ پختون اصل میں افغان ہیں نہ صرف تاریخی طور پر غلط ہے بلکہ تاریخ کے گہرے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ انتہائی احمقانہ دعوی ہے ۔ ہزاروں سال پرانی کتب میں پختونوں کا نام پکتون یا پکتین یا پشتین آیا ہے ۔ یہ ‘افغان’ نام چند سو سال پہلے کی ایرانی اختراع بلک بدعت ہے ۔ دوسری بات یہ کہ افغانستان میں رہنے والا پختونوں سمیت ہر تاجک ، ازبک ، ہزارہ ، ترکمن بھی افغان ہے ۔ یہ ایک collective identity ہے نہ کہ کوئی قومیتی شناخت والا نام ۔
دوسرا غلط بلکہ احمقانہ دعوی یہ ہے کہ پختونوں کا اصل وطن افغانستان ہے ۔ پختونوں کا بنیادی وطن دریائے سندھ کی دھرتی یعنی گندھارا یا پختونخواہ ہے ۔ افغانستان کا علاقہ بھی ایک زمانے میں گندھارا کا حصہ رہا ہے لیکن اب چند سو سال پہلے ایک الگ ملک بن گیا ۔
تاریخی طور پر ہمیشہ گندھارا کی سرزمین یا یہاں کے پختونوں نے افغانستان کے پختونوں کی ادبی ، سیاسی اور نظریاتی رہنما کی ہے۔ اس لیے آپکو پشتو ادب کے تمام بڑے نام چاہے رحمان بابا ہوں ، حمزہ بابا،ہوں ، خوشحال خان یوں یا غنی خان یا دیگر بڑے بڑے نام سب پختونخواہ میں ہی ملیں گے ۔ جبکہ ایک عام افغان پختون شاز ہی کوئی ضرب المثل پشتو میں بیان کر سکتا ہے اس کے لیے وہ صرف فارسی محاورہ اور ضرب المثل استعمال کرتے ہیں چونکہ فارسی بہت فصیح و بلیغ زبان ہے اس لیے پشتو زبان میں افغان پختونوں کی کمزوری سامنے نہیں آ پاتی ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اردو کے زیر اثر پاکستانی پختونوں کا حال بھی اب یہ ہے کہ اپنی زبان میں ذیادہ تر اردو کے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن انکا استعمال افغان پشتو میں فارسی کی بھرمار سے کہیں کم ہے ۔
دوسری بات یہ کہ رنجیت سنگھ نے احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد افغانوں کو شکست دے کر یہاں سے بھگایا تو پختونخواہ کے پختونوں نے پھر بھی مکمل ہتھیار نہیں ڈالے اور بونیر کے سید اکبر شاہ کی سربراہی میں تقریبا” 40 سال ان سے لڑتے یہاں تک کہ ایک اپنے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں لائے جہاں مکمل شرعی حکومت قائم تھی ۔ اور جس کا حکمران مکمل جمہوری طریقے سے پختونوں کے گرینڈ جرگے کے ذریعے سید اکبر شاہ کو مقرر کیا گیا۔
بدقسمتی سے سید اکبر شاہ 7 سال حکومت کرنے کے بعد 1857 میں انتقال گئے ورنہ مورخین کے مطابق انگریز کبھی ہندوستان پر اس طرح قبضہ نہ جما پاتے اگر وہ زندہ رہتے ۔ دوسری بدقسمتی یہ کہ کتنے پختون یا پاکستانی سید اکبر شاہ کے نام سے بھی واقف ہیں جو ہیروازم کی شاندار مثال تھے جنھوں نے دشمن کے سامنے کبھی ہتھیار نہ ڈالے اور آخر میں ریاست بھی قائم کی جبکہ ٹیپو سلطان کے نام سے ہر کوئی واقف ہے جنکو انگریز نے شکست دی اور انکی ریاست بھی چھین لی ۔
تاریخ کا آئینہ اٹھانے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ کچھ فیک نیوز کے بل بوتے پر اور کچھ اصل تاریخ مسخ کرکے نئ خودساختہ تاریخ creat کرکے ترتیب بدلی جا رہی ہے ۔ پختونخواہ کو لغو طور پر افغانستان کا تاریخی حصہ بتایا جا رہا ہے ۔افغانستان کے پختونوں کو پختون ولی اور افغانیت کی اعلی مثال اور پاکستان کے پختونوں کو بزدل ، اپنی تاریخ سے نا بلند ، اور افغانیت سے کوسوں دور پنجابیوں کا غلام یا گل خان باور کرایا جا رہا ہے ۔ یہی کام بھارت میں ہندوتوادی مسلمانوں کی تاریخ کے ساتھ کر رہے ہیں اور ہر چیز کو الٹ کر اور تاریخی حقائق کو جھٹلا کر، کچھ کا کچھ بنا رہے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے اور سچ کسی بیج کی طرح زمین پھاڑ کر کہیں نہ کہیں سے نکل ہی آتا ہے ۔