میں نے تہیہ کیا تھا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر کالم نہیں لکھوں گا کیونکہ ڈاکٹر صاحب پر اب تک ڈیڑھ پونے دو سو کالم لکھے جا چکے ہیں جس کے بعد اُن سے متعلق بحث کا کوئی نیا پہلو تلاش کرنا تقریباً نا ممکن ہے، لیکن‘ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں‘ سو یوں سمجھیے کہ جس طرح ڈاکٹر صاحب کا دل اسلام کے نام پر بنے اِس ملک کی حالت دیکھ کر بھر آیا ہے وہی حال ہمارا بھی ہے لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پاکستان میں قیام کے دوران ہی اُن کی غلط فہمیوں کا ازالہ کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے وطن واپس جا کر اِس غم میں نہ گھُلتے رہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بے شک پوری دنیا میں مسلمانوں کو لیکچر دیے ہیں مگر اُن کی وجہ شہرت وہ خطبات ہیں جو انہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے عظیم الشان اجتماعات میں دیے۔ ہندوستان کا مسلمان اقلیت میں ہے اور ہر اقلیت کی طرح وہ خود کو اور اپنے دین کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ یقیناً اِس بات میں اُس کا کوئی دوش نہیں مگر اِس طرزِ فکر کی وجہ سے اسلام سے متعلق اُس کا مطمح نظر بالکل محدود ہو کر رہ گیا ہے، وہ اسلامی روایت کے اندر رہ کر سوال کرتا ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک سے اُس کا تسلی بخش جواب پا کر مطمئن ہو جاتا ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب بہرحال اِس کام کے استاد ہیں اور ہندوستان میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ دوسری جانب پاکستانی مسلمان بالکل مختلف انداز میں سوچتا ہے کیونکہ وہ اقلیت میں نہیں ہے، وہ اپنے دین کے بارے میں تنقیدی شعور بھی رکھتا ہے اور ہر محفل میں سوال بھی کرتا ہے، اِس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کا مسلمان الٹرا لِبرل ہے، اِس کا مطلب فقط اتنا ہے کہ جہاں ہندوستانی مسلمان کو اپنے ملک میں دین کی بنیادی رسومات کی حفاظت کیلئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے وہاں پاکستانی مسلمان کو یہ چیلنج درپیش نہیں اِس لیے اسلام کے حوالے سے اُس کی سوچ کا زاویہ ہندوستانی مسلمان سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذاکر نائیک کو پاکستانی مسلمانوں کے سوالات نے چکرا کر رکھ دیا ہے، ڈاکٹر صاحب کو یہاں اِس قسم کے سوالات کی توقع نہیں تھی جو اُن سے ایک عام سی پاکستانی لڑکی نے بھرے مجمع میں پوچھ لیا۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہیے تھا کہ پاکستان کیلئے خصوصی تیاری کر کے آتے، انہوں نے ہمیں ’ایزی‘ لے لیا!
ایک بات جو میں اکثر کہتا ہوں اور اب اُس کی تائید ہو گئی کہ پاکستان کے نوجوانوں سے ہم کچھ زیادہ ہی نا امید ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اِس ملک میں امید کی کوئی کرن باقی ہے تو وہ نئی نسل ہے، خاص طور سے بچیاں۔ جس بہادری سے یہ دھان پان سی بچیاں معاشرے کے جبر کا مقابلہ کر رہی ہیں اُس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں سے ایک لڑکی اٹھتی ہے اور مسلم دنیا کے سب سے بڑے عالم سے ایک ایسا سوال کرتی ہے جس کا کوئی جواب اُس سے نہیں بن پڑتا، کیا یہ کم قابلِ فخر بات ہے؟ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ سب کچھ رائیگاں بھی نہیں گیا، اگر سوسائٹی میں انتہا پسندی بڑھی ہے تو دوسری جانب نوجوانوں میں کچھ نہ کچھ تنقیدی شعور بھی پروان چڑھا ہے، وہ اندھا دھند تقلید کرنے کیلئے تیار نہیں، انہیں اپنے سوالات کے جوابات درکار ہیں اور انہیں محض ڈانٹ ڈپٹ کر چُپ نہیں کروایا جا سکتا۔ یہ ہمارے معاشرے کا ایسا مثبت پہلو ہے جس کی ترویج کرنی چاہیے نا کہ ہر وقت چابک ہاتھ میں لے کر اپنے نوجوانوں پر برسانا چاہیے۔
کیا ہمیں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان آنے کی دعوت دینی چاہیے تھی؟ اِس سوال کا بڑا دلچسپ جواب سابق سفیر حسین حقانی نے اپنی ٹویٹ میں دیا کہ ’پاکستان کو اس دعوت پر دوبارہ غور کرنا چاہیے، اِس سے ہمارے ملک کے اِس تاثر کو تقویت ملے گی کہ ہم مذہبی انتہا پسندوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ یوں بھی پاکستان سخت گیر مبلغین پیدا کرنے میں خود کفیل ہے، کسی کو درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے!‘ مجھے اِس حد تک تو اتفاق ہے کہ ریاستی سطح پر اِس دعوت کی ضرورت نہیں تھی، تاہم نجی طور پر ہمیں ذاکر نائیک سمیت ہر قسم کی شخصیت کو مدعو کرنا چاہیے، جس کی بات میں جتنا دم ہوگا وہ سب کو نظر آ جائے گا۔ ذاکر نائیک صاحب نے پاکستان میں جس طرح اپنا مقدمہ پیش کیا وہ سب کے سامنے ہے، میرا خیال ہے کہ اِس سے پاکستان میں اُن کے چاہنے والوں کی تعداد میں کمی ہی ہوئی ہو گی۔ اسی طرح پاکستان کی جامعات، این جی اوز اور نجی اداروں کو بھی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ ہمہ جہت قسم کے دانشوروں کو اپنی تقریبات میں بلا سکیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے پائے کے عالم کو عام مسلمان کیلئے رول ماڈل ہونا چاہیے، اُن کی گفتگو، نشست و برخاست، معاملہ فہمی ایسی ہونی چاہیے کہ لوگ اُن کی گفتار سے ہی نہیں بلکہ کردار سے بھی متاثر ہوں، مگر افسوس کہ پاکستان آ کر اُن کا یہ بھرم بھی جاتا رہا۔ اُن میں برداشت کا مادہ تقریباً ختم ہو گیا ہے اور وہ مخالف نقطہ نظر سننے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ ذاتی معاملات میں بھی اُن کا رویہ قابل رشک نہیں، جس طرح انہیں نے پی آئی اے کا واقعہ سنایا اور اِس بات پر برہم ہوئے کہ پی آئی اے نے انہیں قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اضافی سامان کی سہولت کیوں نہ دی، اِس سے پاکستانی مسلمان کے دل میں اُن کی توقیر نہیں بڑھی۔
مجھے یہ بھی افسوس ہوا کہ علم الکلام، جو اُن کا شعبہ ہے، اُس میں بھی ڈاکٹر صاحب کوئی کمال نہ دکھا سکے، ایک خواتین اینکر کے ساتھ انٹرویو کے دوران انہوں نے مرد و عورت کے اختلاط کے بارے میں جو رائے دی وہ اُن کی فہم و فراست پر بڑا سوالیہ نشان ہے، مسلم دنیا کے اتنے بڑے عالم سے اِس سے کہیں بہتر دلائل کی توقع تھی۔ ہمیں ایک سوال پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کے پیروکاروں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ جب سے ذاکر نائیک پاکستان آئے ہیں اُن کے دفاع میں اُن کا ہم مسلک طبقہ کمر کس کر میدان میں اترا ہوا ہے، جبکہ اُن کے مخالف مسلک کے لوگ اُن کی حمایت نہیں کر رہے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ ہم لوگ دلیل، گفتگو یا کردار کی بنیاد پر نہیں بلکہ کسی شخص کو اُس کے مسلک کی بنیاد کر ’جج‘ کرتے ہیں؟ اسی طرح ذاکر نائیک میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں جن کا ایک زمانہ معترف ہے مگر اُن کے مخالف مسلک کے علماء کے منہ سے کم ہی اُن کی تعریف سننے کو ملتی ہے۔ کیا یہ رویہ درست ہے؟
آخری تجزیے میں ہمیں ذاکر نائیک کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُن کی وجہ سے پاکستانی سوسائٹی کے چہرے پر چڑھا انتہا پسندی کا نقاب قدرے نیچے سِرک گیا، بلکہ سچ پوچھیں تو ڈاکٹر صاحب کا نقاب بھی کچھ سِرک گیا ہے، اُنہیں مشورہ ہے کہ اسے ٹھیک کرلیں۔
بشکریہ جنگ