دنیا بھر میں تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، جہاں اس ڈیجیٹل انقلاب نے معاشرتی ترقی، سہولت اور معلومات تک آسان رسائی کو فروغ دیا ہے، وہیں سائبر کرائم کے مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔ سائبر کرائم، یعنی ڈیجیٹل جرائم یا انٹرنیٹ سے جڑی مجرمانہ سرگرمیوں کا تصور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے اس سے نمٹنے کے لیے اپنے قوانین میں سائبر سکیورٹی اور کرائم کے حوالے سے قوانین شامل کیے ہیں۔
پاکستان میں بھی ان جرائم سے بچاؤ اور روک تھام کے لیے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) کو نافذ کیا گیا ہے۔ PECA کا مقصد ایسے جرائم کو کنٹرول کرنا ہے، جو ڈیجیٹل دنیا میں جنم لیتے ہیں، جیسے کہ ڈیٹا کی چوری، ہیکنگ، سائبر اسٹاکنگ، اور دیگر ڈیجیٹل ہراسانی، اس قانون کے تحت مختلف جرائم اور ان کی سزائیں واضح کی گئی ہیں۔
2024 کی حالیہ ترامیم میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام کی منظوری دی گئی ہے۔ ان اداروں کا مقصد سائبر کرائمز کی موثر تفتیش اور سوشل میڈیا کے مواد کو کنٹرول کرنا ہے، تاکہ صارفین کو ایک محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کیا جا سکے۔ ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا کے قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ کسی بھی شخص سے معلومات طلب کر کے تحقیقات کر سکیں گے۔
حالیہ ترمیم پہ کچھ حلقوں کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے اور اسے آزادی اظہار رائے پر پابندی کا نام بھی دیا جا رہا ہے یہ ایک الگ تفصیلی عنوان ہے، قانونی ماہرین ہی اس حوالے سے صحیح اور مناسب رائے دے سکتے ہیں، لیکن اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ صرف وطن عزیز پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی حالیہ برسوں میں سائبر کرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف ممالک نے اپنے اپنے قوانین اور پالیسیاں ترتیب دی ہیں۔ یورپ میں یورپی یونین جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) اور امریکہ میں کمپیوٹر فراڈ اینڈ ابیوز ایکٹ جیسے قوانین نافذ ہیں۔ یہ قوانین ڈیٹا سکیورٹی، پرائیویسی پروٹیکشن اور سائبر کرائم کے دیگر پہلوؤں پر سخت اقدامات نافذ کرتے ہیں۔ عالمی ادارے جیسے کہ انٹرپول اور یوروپول بھی بین الاقوامی سطح پر سائبر کرائم کے روک تھام کے لیے سرگرم ہیں اور مختلف ممالک کے درمیان تعاون کے ذریعے ان جرائم پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب کہ وطن عزیز میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت مختلف قسم کے جرائم اور ان کی سزائیں متعین کی گئی ہیں تاکہ ان جرائم کے تدارک کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئیے ان جرائم کی تفصیلات اور ان پر عائد سزاؤں کا جائزہ لیتے ہیں:
1. سائبر اسٹاکنگ
سائبر اسٹاکنگ میں کسی شخص کو ناپسندیدہ پیغامات، تصاویر یا ویڈیوز کے ذریعے ہراساں کرنا شامل ہے، جو کہ اس کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس میں ملوث ملزمان کے لیے تین سال تک قید کی سزا، یا دس لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہیں۔
2. ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی
کسی دوسرے شخص کے کمپیوٹر سسٹم یا ڈیٹا تک بغیر اجازت رسائی حاصل کرنا، جس سے اُس کے پرائیویٹ معلومات یا حساس ڈیٹا کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ اس میں ملوث افراد کی سزا تین ماہ تک قید، پچاس ہزار روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہیں۔
3. ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ
اس جرم میں کسی اور کے ڈیٹا میں دانستہ طور پر تبدیلی کرنا یا اس کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ اس کی سزا دو سال تک قید، یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہیں۔
4. شناخت کی چوری
کسی کی ذاتی شناخت چوری کرکے اس کا غلط استعمال کرنا جیسے کہ بینک اکاؤنٹ معلومات، سوشل میڈیا اکاؤنٹس وغیرہ، اس میں ملوث ہونے کی سزا تین سال تک قید، یا پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہیں۔
5. غلط معلومات پھیلانا
کسی شخص، ادارے، یا قوم کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلانا، جو کہ نفرت انگیز مواد کی تشہیر بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی سزا سات سال تک قید، یا جرمانہ شامل ہے۔
6. الیکٹرانک فراڈ
الیکٹرانک ذرائع سے کسی کو دھوکہ دینا یا مالی نقصان پہنچانا، جیسے کہ آن لائن بینکنگ کے ذریعے فراڈ، اس کی سزا دو سال تک قید، یا ایک کروڑ روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہیں۔
7. چائلڈ پورنوگرافی
بچوں کی فحش تصاویر، ویڈیوز یا دیگر مواد کو شیئر یا تقسیم کرنا ایک سنجیدہ جرم ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید، یا پچاس لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں پہ عمل کیا جا سکتا ہے۔
8. ڈیٹا کی مداخلت
کسی کے ڈیٹا کو نقصان پہنچانا یا اس میں غیر قانونی مداخلت کرنا، جس کی سزا تین سال تک قید، یا دس لاکھ روپے تک جرمانہ، یا دونوں شامل ہو سکتے ہیں۔
9. الیکٹرانک ہراسمنٹ
خواتین کو الیکٹرانک ذرائع سے ہراساں کرنا، جیسے کہ نازیبا پیغامات بھیجنا، اس کی سزا ایک سے پانچ سال تک قید، یا جرمانہ شامل ہیں۔
10. ہیکنگ (Hacking)
کسی شخص کے کمپیوٹر سسٹم یا نیٹ ورک کو نقصان پہنچانا یا غیر قانونی رسائی حاصل کرنا ہیکنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید، یا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
یاد رہے، وفاقی سطح پر پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی یا FIA کا سائبر کرائم ونگ مندرجہ بالا قوانین کے نفاذ کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ونگ سائبر کرائم کی رپورٹنگ، تفتیش اور ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ FIA سائبر کرائم ونگ نے آن لائن کمپلینٹ پورٹل بھی فراہم کیا ہے تاکہ لوگ آسانی سے اپنی شکایات درج کر سکیں۔
یقیناً ڈیجیٹل دور میں سائبر کرائم ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے، جس کا مؤثر حل مضبوط قوانین اور ان پر سختی سے عمل درآمد میں مضمر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 جیسے قوانین کے نفاذ سے سائبر کرائم کی روک تھام میں خاطر خواہ بہتری بھی آئی ہے، لیکن ابھی مزید آگاہی اور قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ، ان قوانین کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے عوام کی حفاظت، پرائیویسی کا تحفظ، اور سائبر کرائم کے خلاف اقدامات حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہونے چاہیے۔ مستقبل میں، قانون کے مزید مؤثر نفاذ اور لوگوں کی تعلیم و آگاہی کے ذریعے سائبر کرائمز کے واقعات میں کمی ممکن ہو سکتی ہے۔ عالمی تعاون اور ٹیکنالوجی کے مثبت استعمال کے ساتھ ہی ہم سائبر دنیا کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔