بستہ، پیرا شوٹ اور توسیع

آج کل ” یار دوستوں ” نے سوشل میڈیا پر ایک ترمیم شدہ ” لطیفہ ” بہت پھیلا رکھا ہے کہ ایک طیارے میں وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، کرکٹر یونس خان اور اسکول کی ایک طالبہ سفر میں تھے۔ جہاز میں تکنیکی خراپی پیدا ہوگئی۔ پیرا شوٹ تین تھے۔ کرکٹر یونس خان نے کہا وہ قوم کا ہیرو ہے، قوم کو اس کی ضروت ہے، یہ کہہ کر پہلا پیرا شوٹ بندھا اور نیچے کود گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ ملک کے لیڈر ہیں، قوم کو ان کی ضرورت ہے۔ یہ کہہ کر دوسرا پیرا شوٹ باندھا اور نیچے کود گئے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسکول کی طالبہ سے کہا آپ قوم کا مستقبل ہو، آخری پیرا شوٹ آپ باندھو اور جان بچالو۔ بچی مسکرا کر بولی۔ طیارے میں ابھی دو پیرا شوٹ باقی ہیں۔ میاں صاحب میرا اسکول کا بستہ لیکر نیچے کود گئے ہیں۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے سے دس ماہ قبل ہی، توسیع نہ لینے کے فیصلے کا اعلان کرکے یہ ثابت کردیا ہے ہے کہ وہ ” توسیع پسندانہ ” عزئم کے قائل نہیں ہیں۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ انہیں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے ذریعے آخر یہ بیان جاری کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں کہیں سے یہ ” سن گن ” مل گئی تھی کہ وزیراعظم نواز شریف نے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے سے ایک برس قبل ہی اپنے قریبی رفقا سے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ” صلاح مشورے ” شروع کردیئے تھے۔میاں صاحب کے صلاح مشوروں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ” اپنے رفقا ” سے "صلاح مشورہ” لیتے وقت انہیں یہ "صلاح مشورہ” بھی دے ڈالتے ہیں کہ وہ کس قسم کا "صلاح مشورہ” چاہتے ہیں۔ ادھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا توسیع نہ لینے کا بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب وہ حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ ایک ہی طیارے میں بیٹھ کر مصالحتی مشن پر سعودی عرب اور ایران پہنچے اور واپسی پر ” اکیلے ” لوٹے کیونکہ وزیر اعظم کا اگلا پڑاو سوئٹزر لینڈ اور پھر انگلیںڈ کا تھا۔

راویوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ 26 مہنیوں میں دونوں شریفوں نے اتنا وقت اکٹھے نہیں گزارا جتنا پچھلے ہفتے سعودی عرب اور ایران کے مصالحتی دوروں میں ساتھ گزارا۔ اور یہ "انوکھا ساتھ” بھی سفر کا تھا جس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ کسی کو بہت قریب سے جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرلو۔ یقینا اس ہوائی سفر کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھنے، جانچنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہوگا۔ طیارے کے اس سفر میں ملک کے دونوں بڑوں کی تصویریں بھی جاری ہوئیں جن میں یہ بات واضح طور پر ” نظر ” آرہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف دوران سفر بھی سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحتی مشن کے حوالے سے تجاویز پر غوروغوض کرتے رہے۔ ویسے بھی ہمارے میاں صاحب کی سیاسی زندگی میں ” طیارے” کی بڑی اہمیت ہے۔ چاہے 12 اکتوبر 1999 ہو، 10 ستمبر2007 ہو یا پھر 18 جنوری 2016 ۔ ہاں فر ق صرف اتنا ہے کہ 12 اکتوبر 1999 کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف طیارے میں تھے اور وزیراعظم نواز شریف وزیر اعظم ہاوس میں جبکہ 10 ستمبر 2007 کو نواز شریف طیارے میں تھے اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف صدارتی محل میں ۔مگر 18 جنوری 2016 اس لحاظ سے مخلتف اور منفرد تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف دونوں "ایک ہی طیارے” میں سوار تھے۔

کیا ایک ہی طیارے کے مسافروں کو ” ایک ہی کشتی کے مسافر ” کہا جاسکتا ہے؟؟؟ یقینا معنوی لحاط سے تو بالکل نہیں کیونکہ کشتی ” پانی ” میں چلتی ہے اور طیارہ ” ہوا ” میں اڑتا ہے۔ پانی میں کشتی کا چلنا شاید وزیراعظم کی پانچ سالہ مدت کی طرح ہے جسے پورا کرنے کے لئے ہر پل دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ کہ کہیں کوئی ” اپنا ” کشتی میں "سوراخ” نہ کردے اور جہاز کا ہوا میں اڑنا شاید آرمی چیف کی تین سالہ مدت کی طرح ہے جہاں ہر آن ” ہائی جیکنگ” کا "دھڑکا” لگا رہتا ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ کشتی کو ڈوبنے اور ہوائی جہاز کو ہائی جیکنگ سے بچانے کے لئے آنکھیں روشن، ناک محفوظ اور کان کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے آنکھیں روشن رکھنے کے لئے وزارت خارجہ اپنے پاس رکھی۔ ناک بچانے کے لئے وزارت داخلہ چوہدری نثار کے حوالے کی اورکان کھلے رکھنے کے لئے وزارت اطلاعات پرویز رشید کے ذمہ لگائی مگر اب حالت یہ ہے کہ زیادہ روشنی کے باعث آنکھیں مسلسل کھولنا مشکل ہورہا ہے۔ ناک، "خطرناک” ہوتی جا رہی ہے اور پرویز رشید صاحب کی طرف سے زبان کے زیادہ اور ہمہ وقت استعمال کے باعث حکومت کے کان میں، کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی۔

جنرل راحیل شریف کے ” توسیع ” نہ لینے کے بیان کو پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی نے بڑھ چڑھ کر سراہا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے بھی جنرل راحیل شریف کے توسیع نہ لینے کے بیان کو قابل تعریف قرار دیا ہے، ماضی میں انہوں نے اپنی صدارت میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو بھی قابل تعریف قرار دیا تھا۔ مستقبل کے وزیراعظم عمران خان ، جو دھرنے کی 126 روزہ "توسیع” کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، نے بھی آرمی چیف کے بیان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی (جس نے ماضی میں تمام فیصلے ” میرٹ ” پر کئے) کے سربراہ سراج الحق نے کہا ہے کہ تمام فیصلے میرٹ پر ہونے چاہیئے۔ جنرل مشرف کے دور اوائل کی ” روشن خیال سیاست ” کی حاممی عوامی نیشنل پارٹی نے نکتہ آفرینی کی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے اس بیان سے سیاست میں فوج کا کردار کم ہوگا۔

بعض "سیانوں” کو اعتراض ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سیاست دانوں کی طرح بیان کیوں دیا۔ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جرنیل سیاست کر رہے ہیں۔ سیاستدان کاروبار کر رہے ہیں۔ کاروباری، صحافت کر رہے ہیں۔ صحافی، پراپرٹی ڈیلنگ کر رہے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلر نوٹ بنا رہے ہیں۔ نوٹ ڈی ایچ اے میں لگ رہے ہیں۔ ڈی ایچ اے، بحریہ سے لگ رہا ہے۔ بحریہ سے چوہدری نثار کی نہیں لگ رہی ہے اور چوہدری نثار آج کل “بیمار” سے لگ رہے ہیں۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ فوجی حلقوں کے قریب سمجھے جانےو الے چوہدری نثار ان دنوں بھی "بیمار” ہی تھے جب انہوں نے 1999 میں میاں صاحب کو جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر شنید یہ ہے کہ میاں صاحب اب ” بستے اور پیرا شوٹ کا فرق ” اچھی طرح جان چکے ہیں اس لئے انہوں نے آرمی چیف کے( توسیع )نہ لینے کے بیان کے بعد اپنے بیرونی دورے میں( توسیع )کر لی اور اب مزید( صلاح مشوروں) کے بعد پاکستان واپس پہنچے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے