حکایت کا حقیقت سے تعلق ہو یا نہ ہو لیکن اس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے حکمت کو کشید کیا جاتا ہے ، گزرے وقتوں میں بادشاہ سلامت کے دربار میں ایک شاہی حجام بھی ہوتا تھا۔ نام تو اسے شاہی حجام کا دیا گیا ہوتا تھا مگر مکیں وہ کچی بستی کا تھا ، بادشاہ کا معمول تھا کہ جب وہ حجامت کرواتا اپنے مشیر خاص کو بلا لیتا اور اس سے شہروں کے حالات و واقعات کے بارے میں آگاہی حاصل کرتا۔ مشیر خاص اسے بتاتا کہ آپ کی برکات کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے ، تعلیمی اداروں میں یکساں نصاب تعلیم رائج ہے، امیر اور غریب کے بچے ایک جگہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ملک کے ہسپتالوں میں ادویات وافر مقدار میں ہیں اور ڈاکٹر حضرات پوری تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہمارے پاس گیس اور بجلی اتنی وافر مقدار میں ہے کہ ہم اپنے پڑوسی ملکوں کو برآمد کر کے بھاری زرمبادلہ کما رہے ہیں ، شہریوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے ، قانون کی لٹھ سے امیر اور غریب برابر ہانکے جا رہے ہیں ، پولیس لوگوں کی خدمت کیلئے 24گھنٹے ہوشیار رہتی ہے ، چوری چکاری کا نام ہمارے ملک میں ہے ہی نہیں۔ بادشاہ سلامت آپ کی برکات کی وجہ سے ہمارے ملک کے شہری دو وقت کی روٹی نہیں بلکہ صبح ، دوپہر اور شام سیر ہو کر کھانا کھاتے ہیں۔ کوئی شہری ایسا نہیں جس کے جسم پر چیتھڑے ہوں ۔ مشیر خاص کی یہ باتیں جب حجام سنتا تو دانت پیس کر رہ جاتا ، غصے سے اس کے ہاتھ کانپنا شروع ہو جاتے کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ بادشاہ سلامت اس کے استرے سے کٹتے کٹتے بچے۔
شاہی حجام مشیر خاص کی یہ باتیں کب تک برداشت کرتا ، ایک رات وہ اپنے بستر پر نیم دراز تھا اس نے سوچا کہ وہ صبح بادشاہ سلامت کو اصل حقائق سے آگاہ کرے گا معمول کے مطابق جب وہ دربار خاص میں پہنچا تو ہمت کر کے بادشاہ سلامت سے بولا، جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، بادشاہ سلامت نے اجازت دی تو کہنے لگا عالی جاہ آپ کا مشیر آپ سے روزانہ جھوٹ بولتا ہے، لوگوں کو پینے کے صاف پانی تو دور کی بات کھارا پانی بھی نہیں ملتا، امیر اور غریب کیلئے انصاف علیحدہ علیحہ ہے ، ہسپتالوں کی حالت دگرگوں ہے ، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ تو دور کی بات کہیں کہیں دن غائب رہتی ہے ، بادشاہ نے جب حجام کی باتیں سنیں اور سوچا یہ بندہ تو بڑے کام کا ہے اپنے مشیر خاص کو برطرف کر کے حجام کو یہ عہدہ سونپ دیا ، کچھ عرصہ تو نیا مشیر بادشاہ سلامت کو اصل حقائق سے آگاہ کرتا رہا مگر ایک خاص وقت کے بعد اس کی زبان بھی سابقہ مشیر کی طرح چلنے لگی اور سب اچھا کی رپورٹ دینے لگا۔
قارئین:ایسا کیوں تھا؟ ایسا اس لئے تھا کہ محلات کے مکینوں کو کیا پتہ کہ کچی بستی کے رہنے والوں کے کیا مسائل ہوتے ہیں؟ محلات میں رہنے والوں کو کبھی لوڈشیڈنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، ڈاکٹر حضرات چوبیس گھنٹے ہاتھ باندھے ان کی خدمت کیلئے کھڑے رہتے ہیں ، وہاں تو امن ہی امن ہوتا ہے کیونکہ پولیس کی پوری گارد وہاں موجود ہوتی ہے اس علاقے میں جتنے بھی سکول ہوتے ہیں وہاں تو یکساں نظام تعلیم ہوتا ہے، وہاں تو دنیا کی ہر سہولت میسر ہوتی ہے ، محلات کے مکین اس درد سے ناآشنا ہوتے ہیں جو تھر کے لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے محسوس کر رہا ہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ راولپنڈی، لاہور،کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملک کے دیگر بڑے شہروں کے ہسپتالوں کی حالت زار کیا ہے؟ وہاں ڈسپرین کی گولی تو دور کی بات ڈاکٹر بھی میسر نہیں ہوتا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ بازار میں آٹے کا بہاؤ کیا ہے؟ مرسڈیز اور لینڈ کروزر میں سفر کرنے والوں کو اس بات کا بھی ادراک نہیں ہوتا کہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں کس طرح سے دھکے کھا رہے ہیں۔ محلات کے مکینوں کو جو سہولیات میسر ہوتی ہیں انہوں نے تو اچھا کی رپورٹ دینا ہوتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی کاسہ لیسیوں ، چاپلوسیوں کے نرغے میں ہیں جو انہیں سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں ، حکمرانوں کی سوچ بھی موٹروے سے شروع ہو کر اورنج ٹرین پر ختم ہوتی ہے۔ دہشتگرد پوری طرح متحرک ہیں، تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ سیاستدان آپسی اختلافات بھلا کر یکسوئی کے ساتھ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں لیکن وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے ساتھ ساتھ سپہ سالار کو بھی شامل کیا گیا۔سپہ سالار کا ریٹائرمنٹ کے دوٹوک اعلان کے بعد کئی’’ موگیمبو ‘‘ تو خوش ہوئے لیکن قوم اداس ہو گئی۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے نیکٹا قائم کیا گیا تھا لیکن وہ ابھی صرف کاغذوں میں ہے حکومت کے اہلکاروں کو اپنے اللوں تللوں کیلئے فنڈز تو ملتے ہیں لیکن نیکٹا کو فنڈز ایشو نہیں کیے جا رہے ۔ حضور والا ملک عوام سے بنتے ہیں خدا را اپنے اللے تللے ختم کریں اور ملک سے دہشتگردی ختم کرنے کیلئے یکسو ہو جائیں۔