تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی، خوشحالی اور روشن مستقبل کی بنیاد ہے۔ یہ فرد کی سوچ کو وسعت دیتی ہے، اسے بہتر شہری بناتی ہے اور معاشرے کی مجموعی بہتری میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں تعلیم اب بھی ایک خواب کی مانند ہے، جو ہزاروں بچوں کی نظروں میں تو موجود ہے، مگر ان کے ہاتھوں سے دور ہے۔
پاکستان کے دیہی علاقے زندگی کی سادگی اور فطری حسن سے مالا مال ہیں۔ یہاں لوگ کھیتوں میں کام کرتے ہیں، خواتین پانی کے کنویں سے بھر کر لاتی ہیں، اور بچے مٹی سے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مگر ان مناظر کے پیچھے ایک خاموش بحران چھپا ہوا ہے: تعلیم کی کمی۔ لاکھوں بچوں کے لیے اسکول جانا ایک ناممکن خواب بن چکا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی کمی، بنیادی سہولتوں کا فقدان، اور مالی مشکلات ہیں۔
دیہی اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اکثر اسکولوں میں مناسب کلاس رومز موجود نہیں، بینچیں ٹوٹی ہوئی ہیں، اساتذہ کی تعداد کم ہے اور جو موجود ہیں وہ بھی تربیت یافتہ نہیں۔ نتیجتاً بچے یا تو تعلیم چھوڑ دیتے ہیں یا کبھی اسکول کا منہ ہی نہیں دیکھ پاتے۔ اس سے نہ صرف انفرادی ترقی رُک جاتی ہے بلکہ غربت اور ناخواندگی کا دائمی چکر مزید مضبوط ہوتا ہے۔
ایک مقامی کسان نے اپنے دل کی بات ان الفاظ میں بیان کی:
"ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھیں اور بہتر زندگی گزاریں۔ لیکن قریب ترین اسکول 10 کلومیٹر دور ہے، اور ہم انہیں بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ دل توڑ دینے والی بات ہے کہ ان کے خواب دھندلا رہے ہیں۔”
تاہم، اندھیرے میں روشنی کی کرنیں بھی موجود ہیں۔ ایسے بہت سے نوجوان ہیں جو ان مشکلات کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ عائشہ، ایک بارہ سالہ بچی، روزانہ 5 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اسکول جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے:
"یہ آسان نہیں ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ تعلیم ہی میرے خاندان کی مدد اور میرے خوابوں کو پورا کرنے کا واحد راستہ ہے۔”
ماہرینِ تعلیم کے مطابق دیہی علاقوں میں تعلیم میں سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد، جو دیہی ترقی کے شعبے میں برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس حوالے سے کہتے ہیں:
"تعلیم نہ صرف افراد کو بہتر بناتی ہے بلکہ پوری برادری کو بدل دیتی ہے۔ ہمیں حکومتی پالیسیوں، غیر سرکاری تنظیموں، اور عوامی حمایت کی ضرورت ہے تاکہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی دی جا سکے۔”
آج کے دور میں ٹیکنالوجی نے تعلیم کے میدان میں نئی راہیں کھولی ہیں۔ ڈیجیٹل اقدامات، آن لائن لرننگ اور موبائل کلاس رومز جیسے منصوبے دیہی علاقوں میں تعلیمی خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے ذریعے دور دراز کے علاقوں تک بھی علم کی روشنی پہنچائی جا رہی ہے۔
آخر میں، ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تعلیم محض ایک حق نہیں، بلکہ ایک روشن اور باوقار زندگی کی ضمانت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے، تو ہمیں دیہی تعلیم کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ آئیں، ہم سب مل کر یہ عزم کریں کہ ہم دیہی بچوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں گے، اور تعلیم کے ذریعے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھیں گے۔
تعلیم سب کے لیے — بہتر کل کی کنجی