جب نمبر زندگی پر بھاری پڑ جائیں

آزاد کشمیر کی وادیٔ جہلم کے دلکش علاقے چکوٹھی سے آنے والی ایک دلخراش خبر نے ہر حساس دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ محمد یعقوب کا جواں سال بیٹا، 17 سالہ کاشف، میٹرک کے امتحان میں ناقص نتائج دیکھ کر اس قدر دل شکستہ ہوا کہ اس نے دریائے جہلم کے مقام ‘ڈولی’ میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

یہ منظر دیکھ کر اس کا بڑا بھائی، 19 سالہ وقاص، اسے بچانے کے لیے فوراً دریا میں کود پڑا، مگر افسوس کہ وہ بھی دریا کی بے رحم موجوں کی نذر ہو گیا۔

یہ واقعہ صرف ایک گھر کا المیہ نہیں بلکہ ایک پورے معاشرے کے لیے آئینہ ہے۔ ان دو نوجوانوں کی المناک موت نے ہمارے تعلیمی نظام، والدین کی توقعات، اور معاشرتی رویوں کے کئی چہرے بے نقاب کر دیے ہیں۔ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ، جو بظاہر ترقی کی سیڑھی ہے، درحقیقت ایک ایسا "رٹا سسٹم” بن چکا ہے جس نے بچوں کے ذہنوں پر نمبروں، گریڈز اور پوزیشنز کا ایسا دباؤ مسلط کر دیا ہے کہ وہ ناکامی کو زندگی کا خاتمہ سمجھ بیٹھے ہیں۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، ہر سال میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج کے بعد ہم ایسی خبریں سنتے ہیں، مگر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کرتے۔ بچے محض تعلیمی اداروں کے "پروڈکٹس” نہیں، وہ جذبات، خوابوں اور حساس ذہنوں کے حامل انسان ہیں۔ جب والدین کی توقعات، اساتذہ کی سختی، رشتہ داروں کے طعنے، اور سماج کا بے رحم رویہ ان پر یکجا ہو جائے، تو ایک کمزور لمحہ انہیں زندگی چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

میرے پیارے بچو!
خدارا، ایک نتیجے کو زندگی کی آخری لکیر نہ سمجھو۔ امتحان میں ناکامی صرف ایک تاخیر ہے، انجام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے ہر موڑ پر نئے راستے رکھے ہیں، نئی امیدیں رکھی ہیں۔ جو آج تمھیں رلا رہا ہے، کل وہی تمھاری طاقت بن سکتا ہے۔ اگر نمبر کم آ گئے، تو دوبارہ کوشش کرو مگر زندگی کا دیا بجھانے کا سوچنا بھی مت۔ یاد رکھو، تمھارے ماں باپ تمھاری کامیابی سے زیادہ تمھاری موجودگی سے خوش ہوتے ہیں۔

والدین، اساتذہ، اور تعلیمی اداروں سے بھی دل کی گہرائی سے گزارش ہے کہ بچوں کی تربیت کو صرف نصابی کامیابیوں سے نہ جوڑیں۔ اُن کی شخصیت، خود اعتمادی، اور جذباتی توازن پر توجہ دیں۔ انہیں بتائیں کہ وہ ہر حال میں آپ کے لیے قیمتی ہیں۔ سکولوں اور کالجوں میں ذہنی صحت کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں، بچوں کے ساتھ گفتگو اور مشاورت کے دروازے کھولے جائیں۔

خدارا! اپنے بچوں کو سمجھیں، ان کے دل کی آواز سنیں، اور معاشرے کو ایسا بنائیں جہاں زندگی، نمبرات سے زیادہ اہم ہو۔
کیونکہ نمبر نہیں، زندگی اہم ہے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے