یہ آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ اقراء روضۃ الاطفال گلگت بلتستان کے ہیڈ، مولانا شبیر صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور حکم دیا کہ اقراء کے ہیڈ آفس آئیں ، کچھ ضروری امور پر بات کرنی ہے۔
جب میں وہاں پہنچا تو قاری حسین صاحب بھی موجود تھے۔ اور اقراء کے ایڈمنسٹریٹر جناب منصور صاحب بھی تھے، اسی دن میری پہلی ملاقات قاری نوید صاحب سے ہوئی، انہوں نے چائے پانی کا بندوبست بھی کرلیا۔ اس وقت وہ اقراء میں کسی چھوٹی سی پوسٹ پر تھے، مگر بہت کم عرصے میں انہوں نے محنت اور ذہانت کے ساتھ اکاؤنٹس کا کام اس درجہ سیکھا کہ اقراء روضۃ الاطفال کے تمام مالی معاملات ان کے سپرد کر دیے گئے۔ بعد ازاں محترم قاضی نثار احمد صاحب( رئیس جامعہ نصرۃ الاسلام) نے جامعہ نصرۃ الاسلام اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کے اکاؤنٹس کی ذمہ داری بھی ان کے حوالے کر دی۔
قاری نوید کی باضابطہ تعلیم واجبی سی تھی، مگر اکاؤنٹس کے کام میں وہ کسی اعلیٰ تربیت یافتہ ماہر سے کم نہ تھے۔ میرا ان کے ساتھ تعلق تقریباً سات سال پر محیط رہا، اور ان برسوں میں میں نے انہیں ایک انتہائی ایماندار، اصول پسند اور غیر معمولی حد تک فیئر انسان پایا۔
اس دوران میں جامعہ نصرۃ الاسلام سے میگزین نکالتا تھا اور کئی دوسرے امور بھی سرانجام دیتا تھا، اس لیے قاری نوید صاحب سے روزانہ واسطہ رہتا۔ بعض اوقات مجھے ان پر سخت الفاظ میں تنقید بھی کرنی پڑتی۔ حالانکہ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے، مگر اللہ گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی برا نہیں منایا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں ان کے دفتر کا دروازہ زور سے کھول کر شکوہ شکایت کے انبار لگا دیتا، اور وہ بجائے ناراض ہونے کے اپنی کرسی سے اٹھتے، مجھے سینے سے لگاتے اور پھر بائیک اسٹارٹ کرکے بازار چلتے اور کسی جلیبی کی دکان پر رکتے،اور ہم جلیبی کھاتے۔ جلیبی ان کی کمزوری تھی، انہیں اس کا بہت شوق تھا۔
2017 میں جامعہ نصرۃ الاسلام سے جوٹیال شفٹ ہوگیا، مگر 2019 تک میں اکثر جامعہ آتا جاتا رہا۔ اس کے بعد مصروفیات کے باعث جسمانی طور پر تو جامعہ سے الگ ہوگیا، مگر دل آج بھی وہاں کے اساتذہ کرام ملازمین، مالی، تندوری تک ، سب سے دعا سلام باقی ہے۔ قاری نوید صاحب سے بھی گاہے بگاہے رابطہ رہتا، اور کبھی کبھار ہم بیٹھ کر چائے پیتے اور دل کے پھپھولے پھاڑتے۔ وہ اکثر اپنی اہلیہ کی بیماری کا ذکر کرتے، اور میں ان کی خبر گیری کرتا۔ کھبی فون پر تو کبھی واٹس ایپ پر تبادلہ خیال بھی ہوتا ۔
آج دوپہر کو چلاس کالج میں تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے خبر ملی کہ قاری نوید صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ ابتدا میں مجھے یقین نہ آیا۔ فوراً بھائی سلیم اور مولانا حبیب اللہ دیداری سے تصدیق کی، تو دل دہل کر رہ گیا۔ معلوم ہوا کہ کل شام تک وہ نصرۃ الاسلام میں معمول کے مطابق کام کرتے رہے، اور رات کو اچانک طبیعت بگڑ گئی اور وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ دور ہونے کی وجہ جنازہ میں شرکت نہ کرسکا۔
ان کی موت کی خبر سنتے ہی پندرہ سالہ یادوں کا دریچہ یکدم کھل گیا۔ وہ ایک مکمل سیلف میڈ انسان تھے، جنہوں نے اپنی محنت، سچائی اور ایمانداری سے مقام حاصل کیا۔ اصول پرستی ان کی پہچان تھی، اسی وجہ سے کئی لوگ ان سے شاکی بھی رہتے تھے۔
آج دل بہت بوجھل ہے۔ قاری نوید جیسے لوگ اس معاشرے میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لے، ان کی مغفرت فرمائے، اور ان کے بچوں کو بہترین نعم البدل عطا کرے۔
آمین۔